کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 162
ڈیانوی نے راقم سے کیا تھا۔ حکیم صاحب اپنی زندگی کے آخری عہد میں جب کہ وہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر ڈھاکہ میں مقیم تھے، مذکورہ بالا عنوان سے ایک کتاب لکھ رہے تھے، مگر جلد ہی پیمانۂ حیات لبریز ہو گیا۔ اس کتاب کا نامکمل مسودہ بھی اب دستیاب نہیں ۔
بحیثیتِ طبیب:
حکیم محمد ادریس اپنے اطراف کے نامور طبیب تھے۔ مشغلۂ طبابت پوری زندگی رہا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری، علامہ شمس الحق کی وفات پر اپنے تعزیتی شذرے میں لکھتے ہیں :
’’جناب مولوی حکیم محمد ادریس صاحب ما شاء اللہ جامع علوم ہیں ۔ خدا سے دعا ہے کہ حکیم صاحب کو مولانا کے نقشِ قدم پر چلنے کی خدا توفیق دے۔ جہاں تک مجھ کو معلوم ہے مولوی صاحب اپنے والد ماجد کے بڑے تابعدار، فرماں بردار ہیں ۔ آپ پٹنہ میں مطب کرتے ہیں ، مگر معمولی طبیبوں کی طرح نہیں ، بلکہ اپنے اشغال کے ساتھ۔ امید ہے اب تو دینی اشغال کو اور بھی ترقی دیں گے۔‘‘[1]
شعر و سخن:
حکیم صاحب کو کسی درجے میں شعر و سخن سے بھی دل چسپی تھی۔ سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کی وفات پر اشعار پر مشتمل اردو مرثیہ لکھا، جس کا مطلع یہ تھا:
کیوں جگر میں ہے درد شدت کا ہے کرشمہ یہ کس کی فرقت کا
جامع ازہر (ڈیانواں ):
مولانا حکیم محمد ادریس نے بڑے جوش و ولولے سے ’’جامع ازہر‘‘ کی بنیاد رکھی، گو یہ مدرسہ علمی دنیا میں کوئی خاص ہلچل پیدا نہ کر سکا، لیکن ایک بار رک کر سہی، اس کا ذکر تازہ کر لیں کہ دنیا پھر کبھی شاید اس کا ذکر دہرانے والی نہیں ۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں :
’’ڈیانواں ضلع پٹنہ مولانا شمس الحق صاحب مرحوم محدث کا وطن ہے۔ مرحوم کی وجہ سے یہ
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۱ مارچ ۱۹۱۱ء