کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 161
جمعۃ فی القریٰ کے مسئلے پر یہ کتاب لکھی گئی۔ مولانا ابو المکارم محمد علی مؤی کی کتاب ’’المذہب المختار في رد علیٰ جامع الآثار‘‘ کے آخر میں اس کتاب کا اشتہار ہے۔ مصنف اور کتاب کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے: ’’تالیفِ لطیف جناب علامہ فہامہ ذو القدر النفیس مولانا مولوی ابو عبد اللہ محمد ادریس بن محقق مدقق مجتہد مطلق مولانا ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب لازال الطافہ و ظلالہ علیٰ اہل الحق بھی عنقریب دہلی سے طبع ہو کر شائع ہوگی۔ باعث انتشارِ طاعون کے اس کی اشاعت میں توقف ہوا۔ حق تو یہ ہے کہ شوق صاحب اور گنگوہی صاحب کے رسائلِ جمعہ کا ایسا جواب دندان شکن ہے کہ اگر ہر دو حضرات بنظرِ تحقیق اس کا مطالعہ فرمائیں گے تو اپنے مسلک سے رجوع کریں گے۔‘‘[1] قیاس غالب ہے کہ یہ کتاب طبع ہوئی ہوگی۔ تاہم ہماری نظر سے نہیں گزری۔ و اللّٰه اعلم بالصواب 3 ’’مسئلہ حاضرہ‘‘: مولانا ابو الکلام آزاد کا ایک خطاب بعنوان {وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ } شائع ہوا تھا جس میں شرعی نقطۂ نگاہ سے مسلمانوں کو کانگریس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ حکیم محمد ادریس سیاسی اعتبار سے مسلم لیگ کے حامی تھے۔ مسئلہ حاضرہ میں انھوں نے مولانا آزاد کا جواب دیا ہے۔ یہ کتاب اصلاح المسلین پٹنہ سے ۱۹۳۷ء میں طبع ہوئی، تعدادِ صفحات: ۶۴۔[2] ہمارے پیشِ نظر چونکہ دونوں کتابیں نہیں ، اس لیے اس پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ 4 ’’رپورٹ مدرسہ و مشن اصلاح المسلمین پٹنہ‘‘: حکیم ادریس مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ کے جنرل سکرٹری بھی رہے تھے۔ مدرسے کی کارگزاری سے متعلق ۱۳۲۴ھ تا ۱۳۲۶ھ کی ایک رپورٹ انھوں نے تحریر کی تھی۔ اخبار الپنچ پریس پٹنہ سے طبع ہوئی، تعدادِ صفحات: ۳۹۔ 5 ’’تاریخ و اسباب زوال امت‘‘: اس کتاب کا ذکر راقم کے والد بزرگوار محمد احسن اللہ
[1] المذہب المختار (ص: ۵۷) [2] ’’جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات‘‘ (ص: ۶۷۷)