کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 16
بھی اس دعوت کا راستہ روک نہ سکی، بلکہ یہی ستم ظریفیاں سلفی دعوت کے ارتقا کا سبب بن گئیں ۔
برصغیر کے ظلمت کدے میں دعوتِ توحید اور سلفی منہج و فکر کی تجدید و اِحیاء کے لیے ائمہ اہلِ حدیث کی طرف سے جس جانفشانی کا مظاہرہ کیا گیا، بلاشبہہ وہ قرونِ اولیٰ کی قرین و سہیم تھی کہ جس کی بدولت ناجانے کتنے نفوس راہِ حق سے شناسا ہوئے۔ تقبل اللّٰه جھودھم وشکر مساعیھم وحشرنا في زمرتھم۔
برصغیر کے ماحول کے مطابق دعوتی جہود و مساعی کے ضمن میں علمائے اہلِ حدیث کی دور رس نگاہیں تمام اسالیبِ دعوت پر مرکوز رہیں اور انھوں نے ہر باب میں اپنی ذمے داریاں خوش اسلوبی سے انجام دیں ۔
٭ وعظ و تبلیغ کے ذریعے سے عوام الناس کی ذہنی سطح کے مطابق دعوتی دروس اور مجالسِ وعظ کے ذریعے سے وسیع پیمانے پر توحید و سنت کی اشاعت کا انتظام کیا گیا۔ ملک کے طول و عرض میں اس مقصد کی خاطر ایک طرف اگر اجتماعی پروگراموں کا جال بچھا ہوا تھا تو دوسری جانب انفرادی دعوت کی ذمے داریوں کو بھی نظر انداز نہ کیا گیا۔ دعوت و تبلیغ کے ضمن میں داعیانِ حق کے ذاتی کردار اور شخصی اخلاق نے حیران کن نتائج پیدا کیے۔
٭ تصنیف و تالیف اور صحافت کے میدان میں ائمہ اہلِ حدیث نے ایسا گراں قدر ورثہ چھوڑا ہے کہ ایک عالم تا اَبد ان کی مساعیِ جمیلہ کا ممنون رہے گا۔
٭ مدارس و جامعات کے ذریعے سے تدریسی خدمات اور تعلیمی اصلاحات کی ایسی روشن مثالیں قائم کی گئیں جنھیں مخالف و موافق ہر ایک نے سراہا اور اپنے معاہد و جامعات کے مناہج میں ان سے استفادہ کیا۔
٭ مناظرات و مباحثات میں بھی علمائے اہلِ حدیث نے ایسی بے مثال خدمات انجام دیں کہ اپنے تو ایک طرف مخالفین بھی بوقتِ ضرورت ہمارے علما ہی کو آواز دیا کرتے تھے۔
٭ نصرتِ حق کی خاطر مختلف فرق و احزاب کی تردید میں علمائے اہلِ حدیث نے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا اور ہر مخالف نظریے اور فتنے کی خوب خبر لی۔