کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 156
کوئی قسم ایسی نہیں جس سے مریض کے گذشتہ حالات معلوم ہوں ، آپ کس طرح لوگوں کے حالات صحیح صحیح بتا دیتے ہیں ؟ کوئی عمل یا وظیفہ ہے،۔ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے؟ فرمانے لگے: نہیں میاں ، یہ چیز محض تجربہ اور مشق سے حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے بہار کی مشہور درس گاہ مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے نصاب میں فنِ طب کی کتابیں رکھوائیں اور خود استاذِ طب کی حیثیت سے تعلیم دینے لگے۔ اس زمانے میں یہ بات مشہور تھی کہ علاج جونسا اور جس سے کرواؤ لیکن تشخیص حکیم عبد القیوم سے کرا لو۔ حکیم صاحب قدیم وضع کے پابند متشرع بزرگ تھے۔‘‘[1] ’’انیس معاشرہ‘‘ (معاشرہ بہار) کے مصنف حکیم صاحب کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’حکیم صاحب موصوف کا شہرہ نباضی کے فن میں دور دور پھیلا ہوا تھا۔ حکیم صاحب کو اپنے فن میں بڑا امتیاز حاصل تھا، علم و ادب میں بھی بے مثال مقام رکھتے تھے۔ عربی دانی کا یہ عالم تھا کہ اہلِ عرب ان کو ’’عرب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔‘‘[2] مولانا عبد القیوم نے دائرۃ المعارف النظامیہ حیدر آباد دکن کی جانب سے طبع ہونے والی حدیث کی مشہور کتاب ’’مسند ابی عوانۃ‘‘ کی جلد اوّل کی تصحیح کے لیے خدمات انجام دی تھیں ۔ جلد اول میں مولانا کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے اور انھیں ان القاب کے ساتھ متصف کیا گیا ہے: ’’مولانا الطبیب العالم اللبیب الحکیم عبد القیوم الدیانوي‘‘[3] مولانا حافظ حکیم عبد القیوم بڑے شریف، متدین، پاک طینت اور عمدہ طور و اطوار کے مالک تھے۔ صحیح العقیدہ اور متبع سنت تھے۔ تمام عمر ردِ شرک و بدعت میں ساعی رہے۔حکیم صاحب کو قرآن پاک سے گہرا شغف تھا۔ اپنے تمام صاحبزادوں کو پہلے قرآن حفظ کروایا پھر دیگر علوم کی تعلیم دلوائی۔ بحیثیتِ حکیم عظیم آباد میں اپنے عہد میں فردِ یگانہ تھے۔ تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ نہ ہو سکے مگر اپنے عصر کے اہلِ علم سے مراسم و روابط استوار تھے۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی سے بھی گہرا ربط تھا۔ ’’مدرسہ اصلاح المسلمین‘‘
[1] ’’تاریخ اطبائے بہار‘‘ (۱/۱۷۱، ۱۷۲) [2] ’’انیس معاشرہ‘‘ (۱/۹۶) [3] مسند أبي عوانۃ (۱/۱۰)