کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 153
(۱۹۱۶ء ۔ ۲۰۰۱ء ) اور محمد احسن اللہ بقیدِ حیات تھے اور انہی سے ان کی نسل چلی۔ محمد احسن اللہ ڈیانوی عظیم آبادی: مولانا حافظ محمد ایوب کے فرزندِ ارجمند محمد احسن اللہ کی ولادت ۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء کو ہرداس بگہہ میں ہوئی۔ والد کی وفات کے وقت ان کی عمر محض تین سال تھی۔ کچھ بڑے ہوئے تو والدہ کے سایۂ شفقت سے بھی محروم ہو گئے۔ بچپن شفقتِ پدری سے اور لڑکپن مہرِ مادری سے محروم گزرا۔ ابتدائی تعلیم ٹی۔کے گھوش اسکول پٹنہ میں حاصل کی۔ ۱۹۴۳ء میں پٹنہ مسلم ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انٹر کرنے کے بعد مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ تشریف لے گئے۔ وہاں ایک دو برس سے زیادہ قیام نہیں رہا۔ اپنی زندگی میں جن علما سے استفادہ کا موقع ملا ان میں پٹنہ میں مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی، مولانا عبد الخبیر صادق پوری اور مولانا عبد الغفار صادق پوری شامل ہیں ، جبکہ ڈھاکہ میں مولانا تمنا عمادی مجیبی پھلواروی سے مستفید ہوئے۔ مبدئے فیض نے انھیں درد مند دل اور نظر کی گہرائی دونوں سے نوازا تھا۔ وہ روشن راہوں کے مسافر تھے، مگر افسوس تاریک گلیاں ان کا مقدر بنیں ، لیکن پھر بھی وہ اپنے حصے کی شمعیں جلاتے گئے۔ تقسیمِ ہند کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کر کے ڈھاکہ تشریف لے آئے۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ اس سانحے نے موصوف کے قلب و نظر پر خاص اثر ڈالا۔ محصورینِ پاکستان کے لیے موصوف نے اپنے زبان و قلم سے غیر معمولی خدمات انجام دیں ۔ جلسوں میں تقریریں بھی کیں اور اخبارات میں ان کے مسائل بھی اجاگر کیے۔ محمد احسن اللہ ڈیانوی عظیم آبادی نے مختلف ادوار میں کئی کتابیں لکھیں ، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں : 1۔ برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق۔ 2۔ روح نماز۔ 3۔ محدث ڈیانوی۔ 4۔ یہ غازی یہ شہید۔ 5۔ ایک مسلمان گھرانہ۔ 6۔ اشتراکیت روبہ زوال ہے۔