کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 152
تک مولوی شمس الحق صاحب کی تحویل میں محفوظ ہے اور بالاستحقاق اس کو میرے پاس رہنا چاہیے۔‘‘ [1] اس ایک روپیہ پر میاں صاحب محدث دہلوی نے اپنے دستخط بھی کیے تھے اور یہ ایک روپیہ ۱۹۷۱ء تک حافظ محمد ایوب ڈیانوی کے صاحبزادے محمد احسن اللہ ڈیانوی کے پاس محفوظ تھا۔ اس زمانے میں وہ ڈھاکہ میں مقیم تھے، بنگلہ دیش کے قیام اور اس ضمن میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں جہاں کئی قیمتی علمی ذخیرے ضائع ہوئے، وہیں یہ ایک روپیہ بھی ضائع ہوگیا۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۱۹ھ کو میاں نذیر حسین نے انھیں دوبارہ اپنی اجازت مرحمت فرمائی۔ اخلاق و عادات: مولانا حافظ محمد ایوب نہایت خوش مزاج، نفیس اور شریف النفس تھے۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ اور ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے اور اس کے معاون بھی تھے۔ وفات: مولانا حافظ محمد ایوب نے زیادہ عمر نہیں پائی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد ہرداس بگہہ منتقل ہو گئے تھے۔ آخر عمر میں اپنے سسرال صادق پور پٹنہ میں مقیم تھے۔ وہیں ربیع الثانی ۱۳۴۳ھ/ نومبر ۱۹۲۴ء میں بعمر ۳۷، ۳۸ برس وفات پائی۔[2] اولاد و احفاد: مولانا حافظ محمد ایوب کا عقدِ نکاح صادق پور پٹنہ میں مولانا محمد یعقوب صادق پوری کی چھوٹی صاحبزادی مسماۃ مریم سے ہوا، جو مولانا حکیم ارادت حسین صادق پوری مہاجر مکہ کی پوتی تھیں ، جن سے اللہ تعالیٰ نے پانچ صاحبزادے اور دو بیٹیاں عطا کیں ۔ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں نے صغر سنی ہی میں وفات پائی۔ مولانا کی وفات کے وقت ان کے تین فرزند محمد ابو القاسم (۱۹۱۱ء ۔ ۱۹۷۹ء)، محمد محسن
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۱۶۲، ۱۶۳) [2] مولانا حافظ محمد ایوب ڈیانوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: یادگار گوہری (ص: ۱۲۰ تا ۱۲۳)، الحیاۃ بعدالمماۃ (۱۶۲، ۱۶۳)، حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ (ص: ۲۶۴)، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات و خدمات (ص: ۷۰)