کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 151
سفرِ حجاز:
۱۳۱۲ھ میں اپنے والد علامہ محدث عظیم آبادی اور دیگر افرادِ خاندان کے ہمراہ حجازِ مقدس تشریف لے گئے، جہاں حج بھی ادا کیا اور علما و مشائخ سے مستفید بھی ہوئے۔ وہاں جن اکابرِ علم سے اسنادِ حدیث کا حصول ہوا، ان کے اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں : شیخ احمد بن ابراہیم بن عیسیٰ نجدی، شیخ احمد بن احمد بن علی المغربی التونسی اور شیخ عبد الرحمن بن عبد اللہ السراج حنفی مکی۔
اساتذۂ علم:
سفرِ حجاز سے واپسی کے بعد حافظ محمد ایوب نے حفظِ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی۔ بعض کتبِ حدیث و فقہ کی تحصیل اپنے والد محترم علامہ شمس الحق، عمِ محترم مولانا محمد اشرف اور استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ غازی پوری سے کی۔ ۱۳۱۹ھ میں فارغ التحصیل ہو چکے تھے۔ اسی عمر سے فتویٰ نویسی بھی شروع کر دی تھی۔ ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ میں ایک فتویٰ موجود ہے جس پر ان کی مہر ثبت ہے۔[1]
سیّد نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں :
۱۳۱۹ھ میں دوبارہ شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں :
’’مولانا ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب سلمہ رئیس ڈیانواں وفات سے چار مہینے قبل[2] اپنے چھوٹے لڑکے حافظ ایوب ( جو اس وقت قرآن حفظ کر رہا تھا[3] ) کو لے کر دہلی گئے اور میاں صاحب کے حضور میں پیش کیا۔ آپ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دعائیں دینے لگے اور قرآن سنانے کو کہا۔ شیخ کو باوجود یہ کہ ثقلِ سماع بہت ہو گیا تھا، بایں ہمہ وہ لب کی حرکتوں سے غلط اور صحیح کا اندازہ کر کے برابر لقمہ دیتے جاتے تھے، اس کا نام ہے ملکۂ راسخہ۔ بعد اس کے نہایت شفقت کے ساتھ اس بچے کو ایک روپیہ انعام دیا جو اب
[1] ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ ( ۲/۳۸۰)
[2] سید نذیر حسین دہلوی کی وفات سے چار ماہ قبل۔
[3] قرآن کریم حفظ نہیں کر رہے تھے، بلکہ کر چکے تھے۔