کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 148
مولانا ابو الحسنات عبد الشکور ندوی اپنی مشہور کتاب ’’ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں ‘‘ میں ’’ڈیانواں ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
’’یہاں مولانا شمس الحق صاحب محدث، مولوی حافظ نور احمد صاحب، مولوی محمد زبیر صاحب مشہور اربابِ علم و دولت تھے ۔۔۔۔۔ آخر الذکر جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، معقولات اور اقلیدس میں یہ خاص طور پر مہارت رکھتے تھے۔‘‘[1]
مولانا ثناء اللہ امرتسری کا تعزیتی شذرہ:
مولانا زبیر کی وفات پر مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اپنے اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں مختصر سا تعزیتی شذرہ لکھا تھا، جسے بطورِ یادگار یہاں درج کیا جاتا ہے:
’’آہ! مولوی محمد زبیر، آپ ڈیانواں کے رئیس تھے۔ مولانا شمس الحق صاحب مرحوم کے دست بازو اور ان کے عزیزوں میں پکے اور مخلص اہلِ حدیث اور جوان صالح تھے۔ مولانا مرحوم کے انتقال کا صدمہ ابھی بھولا نہیں تھا کہ ان کے عزیز مولوی محمد زبیر صاحب بھی انتقال کر گئے اور اس زخم کو جو شمس الحق کے غروب ہو جانے سے ہمیں ہو گیا بجائے مندمل کرنے کے ایک اور چرکا دے دیا، اور بجائے مرہم لگانے کے اس پر مرچیں چھڑک گئے۔ آہ! محمد زبیر تیرے مرنے کا غم کیوں نہ ہو ع
گر پیر نود سالہ بمیرد عجبے نیست ایں ماتم سخت ست کہ گویند جواں مرد[2]
ناظرین جنازہ غائب پڑھیں ۔ امرت سر میں پڑھا گیا۔‘‘[3]
وفات:
مولانا محمد زبیر کو اس عالمِ رنگ و بو میں زیادہ وقت میسر نہیں آیا۔ عین عالمِ شباب میں اپنے
[1] ’’ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں ‘‘ (ص: ۴۷)
[2] ’’اگر نوے سال کا بوڑھا فوت ہو جائے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے، یہ ماتم بہت سخت ہے جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ جواں سالہ شخص فوت ہو گیا ہے۔‘‘
[3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۹ جون ۱۹۱۱ء