کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 147
کتاب میں مولانا گوہر علی سے تعلق رکھنے والے براہِ راست افرادِ خاندان کے علاوہ بعض دیگر علماء، مثلاً: مولانا مظہر علی عظیم آبادی، مولانا محمد ابراہیم نگرنہسوی، مولانا علیم الدین حسین نگرنہسوی وغیرہم کے حالات بھی شاملِ کتاب ہو گئے ہیں ۔ ڈاکٹر مظفر اقبال اسلوبِ کتاب سے متعلق لکھتے ہیں : ’’زبان و بیان میں صفائی اور سادگی ہے۔‘‘[1] یہ کتاب مطبع احمدی پٹنہ سے ۱۳۱۲ھ میں طبع ہوئی، تعدادِ صفحات: ۱۷۸۔ اس وقت مولف کی عمر محض ۱۸ برس تھی۔ علم و فضل: مولانا زبیر سے متعلق فرقہ اباضیہ کے ایک امام کے تاثرات گذشتہ سطور میں گزر چکے ہیں ، جو ’’الفضل شھدت بہ الأعداء‘‘ کی قبیل سے ہیں اور مولانا کی فضیلتِ علمی کی بہت بڑی دلیل ہیں ۔ مولانا بڑے شریف، سلامت رو، متدین اور پاکیزہ کردار کے حامل تھے۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی، مولانا زبیر کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’پابندی نماز و روزہ و نفرت شرک و بدعت و شوق اتباعِ سنت کا بچپن ہی سے آپ کو تھا۔‘‘[2] علامہ شمس الحق عظیم آبادی ’’یادگارِ گوہری‘‘ پر اپنی تقریظ میں لکھتے ہیں : ’’برادرم عزیز صاحب الشمائل الحمیدہ، و الاخلاق المرضیہ، و ذو الفضل الباھر و الفخر الظاہر، ذو الذہن الثاقب و الفہم الصائب، الذکی، الخلیق، المولوی ابو عبد اللّٰه محمد زبیر العتیق بارک اللّٰه فی عمرہ و علمہ ۔۔۔۔۔ مولف آں لائق آفرین و ثناہا است فی الواقع در خاندان گوہری عزیز موصوف نہایت ذکی فظین ذہین متین و صاحب فضل و کمال است۔‘‘[3] مولانا حکیم عبد الغفور رمضان پوری نے اپنے تحریر کردہ سفر حج میں ان کا ذکر کرتے ہوئے انھیں ’’جامع معقول و منقول‘‘ قرار دیا ہے۔ [4]
[1] ’’بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک‘‘ (ص: ۱۹۷) [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۲ دسمبر ۱۹۱۹ء [3] ’’یادگارِ گوہری‘‘ (ص: ۱۷۷، ۱۷۸) [4] ’’الرحلۃ الحجازیۃ‘‘ (ص: ۱۷)