کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 146
وہ میرے پاس کئی بار تشریف لائے اور ہمارے مابین جو امرِ اختلاف تھا اس پر مناظرہ کیا۔ وہ مردِ ادیب، خوش مباحثہ اور ذکی و فطین تھے۔‘‘ بعد میں ان کے مابین خط کتابت بھی رہی۔ عمان جا کر نور الدین السالمی نے مولانا زبیر کے لیے اپنے مذہب کی مزید کتابیں بھیجیں ۔ فرقہ اباضیہ کے ایک مورخ شیخ سعید الحارثی نے اپنی کتاب ’’اللولو الرطب‘‘ میں اپنے فرقے کے اکابرِ علم سے متعلق مختلف تاریخی و سوانحی نوعیت کی روایات جمع کی ہیں ۔ اس میں بھی السالمی اور مولانا زبیر کی ملاقات کا ذکر ہے، بلکہ موصوف نے السالمی کا ایک خط بھی نقل کیا ہے جو انھوں نے مولانا زبیر کے نام عمان سے لکھا تھا۔ یہ خط نا مکمل ہے، جس میں السالمی، مولانا زبیر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، لحضرۃ الشیخ الفاضل الکامل الأریب، الزبیر بن علي الأصغر العظیم (آبادي)‘‘ [1] اس مناظرے کی روداد تو ہمیں معلوم نہیں ہو سکی، تاہم نور الدین السالمی نے مناظرے کا نتیجہ اپنے حق میں قرار دیا، اور بزعم خویش اس سال مکہ میں وہ مختلف علما سے ملے اور ہر کسی پر غالب ہی رہے۔[2] تصانیف: مولانا زبیر نے کئی کتابیں لکھیں ، جیسا کہ مولانا سیف بنارسی لکھتے ہیں : ’’آپ کے تصنیف کردہ کئی رسالے ہیں جن میں سے دو مطبوع میرے پاس موجود ہیں ، اور کا مجھے علم نہیں ہوا: 1۔ یادگارِ گوہری 2 ۔رسالہ قربانی۔‘‘[3] تاہم ہمیں صرف ’’یادگارِ گوہری‘‘ حاصل ہو سکی، جس کی نوعیت ایک خاندانی کتاب کی ہے۔ یادگارِ گوہری: مولانا نے اس میں اپنے دادا بزرگوار مولانا گوہر علی ڈیانوی اور ان کے اولاد و احفاد کا تذکرہ کیا ہے۔ بہار میں مولانا گوہر علی اور ان کے صاحبزادگان جود و سخاوت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
[1] اللؤللؤ الرطب (ص: ۲۱۰) [2] تحفۃ الأعیان بسیرۃ أھل عمان (ص: ۳۰۳) [3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۲ دسمبر ۱۹۱۹ء