کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 145
میں پائی جاتی ہے۔ نور الدین السالمی کا تعلق عمان ہی سے تھا۔ السالمی کا شمار اس فرقے کے ائمۂ تجدید میں ہوتا ہے۔ اتفاق سے انہی دنوں کہ جب مولانا زبیر مکہ میں مقیم تھے، نور الدین السالمی اپنے عقیدہ و فکر کی تبلیغ کی غرض سے مکہ پہنچے۔ مولانا زبیر کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ ان سے ملنے گئے اور ان سے اعتقادی موضوعات پر بحث بھی کی۔ نور الدین السالمی نے اپنی کتاب ’’تحفۃ الأعیان بسیرۃ أھل عمان‘‘ میں مولانا زبیر کا ذکر کیا ہے۔ ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کیا اور ان کی خوش خلقی سے متاثر ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’و کنت قد اجتمعت في مکۃ برجال من علماء قومنا وکان رجل منھم یقال لہ الزبیر بن علي الأصغر من أھل عظیم آباد الھند، قد سبقني إلی مکۃ، و لما سمع بوصولي أتی إلي في بیت الرباط، و سألني عن أصول المذھب وفروعہ وأھلہ ومحلہ، فشرحت لہ ذٰلک شرحاً وافیاً، کافیاً وطلب مني بعض کتب المذھب فدفعت إلیہ مشارق الأنوار وکان لم یحضر غیرھا والکلام في ذکر جمیع ما سأل عنہ یطول بہ الکتاب ثم بقي یتردد علي مرارا، و یناظرني في الخلاف الواقع بیننا وبینھم، و کان رجلاً أدیباً حسن الجدال ذا ذکاء و فطنۃ‘‘[1] ’’میں مکہ میں اپنی قوم کے چند علما کے ساتھ تھا کہ وہیں ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی جو عظیم آباد ہندوستان سے تھا اور اس کا نام زبیر بن علی اصغر تھا۔ وہ مجھ سے قبل مکہ میں موجود تھے، جب انھوں نے میری آمد کی خبر سنی تو مجھ سے ملنے بیت الرباط تشریف لائے اور مجھ سے اس مذہب کے اصول و فروع اور اہلِ مذہب اور ان کے محلِ وقوع سے متعلق دریافت کیا۔ میں نے اس کی کافی وضاحت کی۔ انھوں نے مجھ سے اس مذہب کی بعض کتابیں طلب کیں تو میں نے انھیں ’’مشارق الانوار‘‘ دی، کیونکہ اس کے علاوہ کوئی کتاب میرے پاس موجود نہیں تھی۔ اس کی ساری تفصیل لکھنا تو باعثِ طوالت ہے۔ تاہم
[1] تحفۃ الأعیان بسیرۃ أھل عمان (ص: ۳۰۲، ۳۰۳)