کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 142
’’حکیم صاحب اپنے زمانہ کے طبیب حاذق اور عزیزوں ، دوستوں اور ہمسایوں کے حبیب صادق بھی تھے۔ حکیم صاحب ان دیندار نفوس میں تھے جن کے جاننے والے ان کا ادب و احترام کرتے تھے، اور ان کے اعزہ و اقرباء اور احباب دلی محبت رکھتے تھے۔‘‘[1] رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ میں حکیم صاحب کا نکاح حاتم العصر مولانا محمد احسن بن تاج الاسخیاء مولانا گوہر علی صدیقی ڈیانوی کی صاحبزادی سے ہوا۔ مولانا محمد احسن، محدث شہیر شمس الحق ڈیانوی کے حقیقی ماموں بزرگوار تھے۔ مولانا حکیم نصیر الحق تصنیف و تالیف سے دلچسپی نہیں رکھتے تھے، تاہم بعض کتابوں پر ممدوح کی تقاریظ ملتی ہیں ۔ ان ہی کتابوں میں مولانا عبد العزیز نگرنہسوی (تلمیذِ رشید سیّد نذیر حسین محدث دہلوی) کی کتاب ’’نظم البیان فی ابطال البدع و الطغیان‘‘ بھی شامل ہے، جو مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی تھی۔ مولانا حکیم نصیر الحق کی پوری زندگی بحیثیتِ طبیب گزری، اسی اثنا میں تبلیغ و اشاعتِ دین کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ صلابتِ فکر اور اصابتِ رائے کی وجہ سے اپنے ہم جلیسوں میں بڑے مقبول تھے۔ مولانا حکیم نصیر الحق نے ۲۷ ربیع الاول ۱۳۲۸ھ / ۱۹۱۰ء کو وفات پائی۔[2] 
[1] تاریخ اطبائے بہار (۲/ ۱۲۲۔۲۲۲) [2] مولانا حکیم نصیر الحق ڈیانوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: یادگار گوہری (ص: ۱۵۱)، تذکرہ علمائے حال (ص: ۹۴)، نزہۃ الخواطر (ص: ۱۳۹۳)، تذکرہ علمائے بہار (۱/۴۰۴)، تاریخ اطبائے بہار (۲/ ۲۲۰ تا ۲۲۲)، کلیاتِ فخر (ص: ۷۷۱)، نثر الجواھر و الدرر (ص: ۱۶۴۲)