کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 139
نے انھیں مردِ صالح، تقویٰ شعار، صابر و قانت، صادق القول، صحیح الاعتقاد اور متواضع پایا۔‘‘
مولانا ابو القاسم سیف بنارسی، مولانا محمد اشرف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’آپ نہایت حلیم، متقی، صابر، قانت، خلیق، صاحبِ حافظہ قویہ، صحیح الاعتقاد، ملازم جمعہ و جماعت، شب زندہ دار تھے۔‘‘[1]
مولانا محمد زبیر ڈیانوی نے بھی ’’یادگار گوہری‘‘ میں مولانا کے انھیں اوصافِ حمیدہ کا ذکر کیا ہے۔[2]
تدریس:
مولانا نے بعد از تکمیلِ علم ڈیانواں میں اپنی مسندِ تدریس بھی آراستہ کی۔ ان کے تلامذہ میں مولانا فضل اللہ مدراسی، مولانا خدا بخش ڈمرانوی اور مولانا حافظ محمد ایوب ڈیانوی کا ذکر ملتا ہے۔
تصنیف:
مولانا کی تصنیفی خدمات میں ان کی ایک کتاب ’’خلاصۃ المرام في تحقیق القرائۃ خلف الإمام‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ یہ کتاب فارسی میں مسئلہ قرائۃ خلف الامام سے متعلق ہے۔
علمی تحاریک میں شمولیت:
مولانا محمد اشرف اپنے عہد کی مختلف علمی تحاریک میں بھی شریک رہے۔ مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کی قائم کردہ ’’مجلس مذاکرہ علمیہ‘‘ آرہ میں بھی شرکت کرتے۔ ’’ندوۃ العلماء‘‘ لکھنؤ کی علمی تحریک سے بھی مولانا کو خاص دل چسپی تھی۔ ۱۳۱۸ھ/ ۱۹۰۰ء میں پٹنہ میں ’’ندوۃ العلماء‘‘ کا عظیم الشان جلسہ ہوا تھا، مولانا بھی شریکِ جلسہ تھے۔ وہ ندوہ کے مستقل رکن اور اس کے معاون تھے۔
اولاد و احفاد:
ربیع الاول ۱۲۹۴ھ میں مولانا شیخ عبد الکریم ساکن کٹونہ (نالندہ) کی صاحبزادی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اللہ رب العزت نے مختلف اوقات میں اولاد عطا فرمائی، لیکن افسوس
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۹ء
[2] ’’یادگارِ گوہری ‘‘ (ص: ۱۲۳)