کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 138
ان سے مفارقت نہیں کیا۔‘‘[1]
سیّد نذیر حسین دہلوی کی سند:
مولانا محمد اشرف کو اپنے بھائی کی طرح حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے حدیث کی سند دو مرتبہ ملی۔ پہلی مرتبہ ۱۲۹۷ھ میں اور دوسری مرتبہ ۱۳۰۳ھ میں ۔ حضرت میاں صاحب اپنی پہلی عطا کردہ سند میں مولانا اشرف سے متعلق لکھتے ہیں :
’’و ھو متصف بالطبع السلیم و الرأي المستقیم فعلیہ أن یشتغل بإقراء الصحاح الستۃ و یدرسھا، لأنہ أھلھا بالشروط المعتبرۃ عند أھل الحدیث‘‘[2]
سفرِ حج اور حصولِ سندِ حدیث:
۱۳۱۱ھ میں اپنے خانوادے کے ہمراہ فریضۂ حج سے مشرف ہوئے۔ حجازِ مقدس میں زیارتِ حرمین شریفین کے علاوہ متعدد اکابر علماء و مشائخ سے مستفید ہونے کا بھی موقع ملا۔
اوصاف و خصائل:
مولانا حکیم عبد الحی حسنی ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’الشیخ العالم الصالح محمد أشرف بن أمیر علي الصدیقي الدیانوي ۔۔۔۔۔ لازم بیتہ و عکف علی العبادۃ و الإفادۃ، لقیتہ ببلدۃ عظیم آباد، فوجدتہ رجلاً صالحاً تقیاً صابراً قانتاً، صادق القول صحیح الاعتقاد، متواضعاً‘‘[3]
’’شیخ عالم صالح محمد اشرف بن امیر علی صدیقی ڈیانوی ….. اپنے گھر میں اقامت اختیار کی اور خود کو عبادت اور افادہ عام کے لیے وقف کر دیا۔ میں ان سے عظیم آباد میں ملا تھا۔ میں
[1] ’’یادگار گوہری ‘‘ (ص: ۱۲۳)
[2] مجموعہ اجازات قلمی
[3] نزہۃ الخواطر (ص: ۱۳۵۰)