کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 135
مولانا عبد الجبار ڈیانوی
(وفات: ۸ ذی الحجہ ۱۳۱۹ھ/ ۱۹۰۱ء)
مولانا عبد الجبار بن نور احمد بن گوہر علی صدیقی ڈیانوی بہار کے ان قیمتی گوہروں میں سے ایک تھے جنھوں نے تقدیرِ الٰہی سے علم و عمل کی سعادتیں تو حاصل کیں مگر حیاتِ رفتہ کی ساعتیں نہ حاصل کر سکے۔ مولانا بلا شبہہ بہت ذہین و فطین اور عالی دماغ تھے، مگر جواں سالگی کے عالم میں وفات پائی اور اپنی ذہانت و فطانت کے نقوش جریدئہ عالم پر ثبت نہ کر سکے۔
مولانا عبد الجبار کو جن اساتذۂ علم سے اکتساب کا شرف حاصل ہوا، ان میں مولانا نور احمد ڈیانوی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری، علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی، سیّد نذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔
علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی مشہورِ عام تصنیف ’’غایۃ المقصود شرح سنن أبي داود‘‘ کی تلخیص ’’عون المعبود‘‘ کے لیے مصنف گرامی نے جن طلابِ حدیث کو تلخیص کی خدمت کے لیے منتخب کیا، ان میں مولانا عبد الجبار ڈیانوی بھی شامل تھے۔
مولانا عبد الجبار اپنے ایک استادِ گرامی مولانا ابراہیم آروی کے ساتھ حجازِ مقدس تشریف لے گئے اور وہیں عین عالمِ شباب میں وفات پائی۔ مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی لکھتے ہیں :
’’مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم صاحب بانی و مہتمم مدرسہ احمدیہ آرہ ۱۳۱۹ھ میں بارادہ حجِ بیت اللہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ وہاں اس سال موسمِ حج میں ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ چنانچہ بتاریخ شش ذی الحجہ ۱۳۱۹ ہجری اپنے تلبیۂ حج کے بدلے بارگاہِ صمدی میں خودحاضر ہونے کے لیے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس دارِ فانی سے دار البقاء کو رحلت فرمائی اور جنت المعلیٰ کی متبرک زمین میں جگہ پائی۔