کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 133
علم و فضل: مولانا نور احمد ڈیانوی کا شمار ان قابلِ فخر علما میں ہوتا ہے جن کی ذات تا دمِ مرگ ردِ بدعات میں بہت زیادہ ساعی اور اصلاحِ امت میں کوشاں رہی۔ صوبہ بہار میں ممدوح کی ذات سے دعوت عمل بالحدیث کو بہت تقویت ملی۔ شیخ الکل سیّد نذیر حسین مولانا موصوف کو ’’مرجع آزادگان‘‘ کے لقب سے ملقب فرماتے تھے۔مولانا فضل حسین مظفر پوری لکھتے ہیں : ’’یہ القاب مرجع آزادگان مولوی نور احمد صاحب کو لکھا تھا۔ جس شخص نے مولوی صاحب مرحوم کو دیکھا ہے، وہ سمجھ سکتا ہے کہ ان کے لیے یہ کیسا موزوں القاب ہے۔‘‘[1] مولانا حکیم عبد الحی حسنی اپنی مشہور کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں مولانا نور احمد کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’کان مفرط الذکاء، سریع الإدراک، متین الدیانۃ، کبیر الشأن‘‘[2] ’’وہ انتہائی ذہین، معاملہ فہم، نہایت دیانت دار اور بڑی شان والے تھے۔‘‘ اخلاق و کردار: مولانا نور احمد پاکیزہ عادات و اطوار کے مالک اور عمدہ اخلاق و عادات سے متصف تھے۔ ان کے بھتیجے مولانا محمد زبیر ڈیانوی ان کے اوصاف و اطوار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اللہ تعالی نے آپ کو جملہ علوم و فنون میں لیاقتِ کامل عطا فرمایا ہے۔ اس قدر انتقالِ ذہنی و سلامت روی آپ کے ذہن میں ہے کہ خطا کی طرف آپ کا ذہن جاتا ہی نہیں ہے۔ مطلب صحیح کی طرف ذہن سبقت کرتا ہے۔ آپ کو ابتدا سے شوق درس و تدریس کا غالب ہے، بہت لوگوں نے آپ سے علومِ مختلفہ پڑھا ہے اور آپ کے تلامذہ میں شمار ہیں ۔ جمعہ و جماعت و قراء تِ قرآن کے نہایت پابند ہیں ۔ انکساری، عاجزی، حلم، تحمل، تواضع خلق میں بے نظیر ہیں ۔ اللہ تعالی نے بے حد لوگوں کو آپ کے وعظ و نصائح سے
[1] ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ (ص: ۲۷۱) [2] ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (ص: ۱۳۹۴)