کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 125
مولانا ابو القاسم سیف بنارسی کے تاثرات: مولانا ابو القاسم سیفؔ بنارسی، علامہ عظیم آبادی کے تلمیذِ رشید تھے او ر علامہ کو اپنے فرزندوں کی طرح عزیز بھی۔ اپنے ایک مضمون ’’ڈیانواں کا تحفہ‘‘ میں وہ ایامِ گذشتہ کی ساعتوں کو یاد کرتے ہوئے بڑے حسرت و یاس کے ساتھ لکھتے ہیں : ’’مارچ ۱۹۱۱ء سے پیشتر کا زمانہ یاد آتا ہے تو آنکھوں سے آنسو کے دریا رواں ہو جاتے ہیں ۔ کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں ۔ حضرۃ الشیخ المحترم مولانا شمس الحق صاحب زندہ ہیں ، آپ کے شفقت نامے چلے آتے ہیں ۔ کسی میں لکھتے ہیں : ’’عزیز جامع سعادت ولیاقت المحلی بالفضل والکمال مولوی محمد أبو القاسم بنارسي بارک اللّٰه في عمرہ و علمہ‘‘ ( گرامي نامہ ۱۳۲۵ھـ) اور کسی میں : ’’جوان صالح فاضل مولوی محمد ابو القاسم سلمہ اللّٰه ‘‘ ( ۱۳۲۶ھ) مخالفین کا جواب لکھنے کے لیے کتابوں کے تحفے، وہ بھی معمولی قیمت کے نہیں بیس بیس، پچیس پچیس روپیہ کی قیمتی کتابوں کے پارسل چلے آ رہے ہیں ، قلمی کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پر حکم آتا ہے کہ ڈیانواں آکر دیکھ جاؤ۔ جاتا ہوں تو واپس مکان آنے کی اجازت کسی طرح نہیں دیتے۔ رحمہ اللّٰه و جعلہ من المکرمین۔ مرحوم کے دنیا سے گذر جانے کے ایک مدت کے بعد اس بستی سے پھر جو گزر ہوتا ہے تو نہ وہ برکت نظر آتی ہے نہ وہ قلمی کتبِ احادیث کا ذخیرہ۔ بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے: گئی محفل کی رونق داغؔ کے ساتھ‘‘[1] علامہ عظیم آبادی کی سوانح اور تحقیقی مقالات: علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی شخصیت اپنے علم و فضل اور دینی خدمات کے اعتبار سے اس لائق تھی کہ ان کی زندگی ہی میں یا ان کی وفات کے فوراً بعد اہلِ علم کا مرکزِ توجہ بنتی اور کسی کتاب کا مستقل
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث گزٹ‘‘ (دہلی) ستمبر ۱۹۲۸ء