کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 124
اولاد میں بڑے صاحبزادے جناب مولوی حکیم محمد ادریس صاحب ماشاء اللہ جامع علوم ہیں ۔ خدا سے دعا ہے کہ حکیم صاحب کو مولانا کے نقشِ قدم پر چلنے کی خدا توفیق دے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے مولوی محمد ادریس صاحب اپنے والدِ ماجد کے بڑے تابعدار فرمانبردار رہے ہیں ، آپ پٹنہ میں مطب کرتے ہیں ، مگر معمولی طبیبوں کی طرح نہیں ، بلکہ اپنے اشغال کے ساتھ امید ہے اب تو دینی اشغال کو اور بھی ترقی دیں گے۔
گذشتہ جمعہ کے پرچہ میں معمولی خبر کی صورت میں جنازہ کی درخواست تھی مگر آج ذرا مفصل التماس ہے کہ ناظرین مرحوم کے لیے جنازہ غائب پڑھیں ، جن کی تحقیق میں جنازہ غائب مسنون نہیں وہ دعائے مغفرت سے حق ادا کریں ۔‘‘[1]
مولانا محمد اسحاق فخرؔ غازی پوری کا قطعۂ تاریخِ وفات:
محدثِ کبیر ابو الطیب کی وفات پر علما و فضلائے ہند نے عربی، فارسی و اردو میں متعدد قطعاتِ تواریخ وفات موزوں کیے۔ مگر مجھے مولانا محمد اسحاق فخرؔ غازی پوری کے ذہن رسا کا موزوں کردہ قطعہ تاریخ وفات بزبانِ اردو بطور خاص پسند ہے چنانچہ اسے یہاں بطور یاد گار نقل کر رہا ہوں :
آہ مولانائے شمس الحق محیطِ علم و فضل لے گئے تشریف دنیا سے سوئے ملکِ عدم
آپ کی ذات آج تیرہ سواد ہند میں علمِ تفسیر و حدیث و فقہ میں تھی مغتنم
اب کوئی ایسا نظر آتا نہیں اس ہند میں جس کو اربابِ عرب لکھیں کہ یا فخر العجم
اے فلک کس سے چھڑایا تونے ہم کو ہائے ہائے ہم غریبوں پر نہ کرنا تھا تجھے ایسا ستم
طالبانِ علم کس سے پوچھیں معنی حدیث اٹھ گیا ہے شارح قول رسول محتشم
فخر نے کیا خوب لکھی ہے یہ تاریخِ وفات گرچہ ہے بیچارہ پابند غم و درد و الم
حیف صد حیف اب تو یہ سب بے سروپا ہو گئے فضل و تقوی و خرد دین و ادب لطف و کرم[2]
آخری مصرعے سے تاریخِ وفات ۱۳۲۹ھ نکلتی ہے۔
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۱ مارچ ۱۹۱۱ء
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۸ اپریل ۱۹۱۱ ء