کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 123
ہوں ، زبان پر جاری ہے: اللہم اجرنا في مصیبتنا و اخلفنا خیرا منہ۔ ۲۴ مارچ کے اہلِ حدیث میں دعا کے لیے اعلان لکھا۔ ۲۳ تاریخ کو جبکہ اخبار کی آخری کاپی نصف چھپ چکی تھی، مولوی ادریس صاحب کا خط آیا کہ مولانا ۱۹ ربیع الاول (۲۱ مارچ) کو ۶ بجے صبح انتقال کر گئے ۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ اسی وقت بذریعہ خطوط قلمی دہلی، وزیر آباد، سیالکوٹ وغیرہ مقامات پر اطلاع دی، تاکہ جمعہ کے روز مرحوم کا جنازہ پڑھا جائے۔ ایک تار ماتمی مرحوم کے پسماندگان کو دیا۔ مضمون ہذا لکھنے کو بیٹھا کہ مولانا شاہ عین الحق صاحب کا آرہ سے خط آیا، جس نے دل کو ایسا بے تاب کیا کہ خدا ہی کو معلوم
ہے۔ شاہ صاحب نے لکھا:
’’إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ آج ہندوستان کا آفتاب شمس الحق و الملۃ والدین غروب ہو گیا۔ آہ! إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ مولانا اب کیا زندگی کا کوئی مزہ ہے؟‘‘
میں جانتا ہوں میرا یہ بیان مولانا مرحوم کے احباب کو رلائے گا مگر میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ جس طرح میں نے رو رو کر لکھا ہے، میرے رونے میں وہ بھی تو شریک ہوں ، آہ!
آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
آہ! شمس الحق تو نے ہم کو کیسا نقصان پہونچایا۔ اے کاش تو اپنے جیسا اپنی آنکھوں سے کسی کو دیکھ کر ہم سے جدا ہوتا۔ آہ! لوگوں کو نہیں معلوم کہ آج اہلِ اسلام کا عموماً اور اہلِ حدیث کا خصوصاً کیسا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ مگر ہاں خدا کا شکر ہے کہ اس وقت اس بے قراری کی حالت میں میرے دل میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا خطبہ یاد آیا: من کان یعبد محمدا فإن محمد قد مات۔ {يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ } اس خطبہ سے دل کو قدرے تسکین ہوئی، مزید تسکین اس سے ہوئی کہ الحمد للہ مولانا بے خلیفہ نہیں تھے، بلکہ آپ کی