کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 121
’’تبسمک في وجہ أخیک صدقۃ‘‘ پر پورے عامل۔ میں نے اس حدیث کے عامل علما کو کم دیکھا ہے۔ مرحوم نے ۱۲ ربیع الاول (۱۴ مارچ) کو ایک خط لکھا۔ جو مرحوم کی یاد گار کی نیت سے درج کرتا ہوں ۔ غالباً اس خط کے بعد مولانا مرحوم نے اپنے قلم سے کوئی خط نہ لکھا ہو گا، کیونکہ ۱۲ربیع الاول کا یہ خط ہے، ۱۳ کو آپ کی طبیعت ناساز ہوئی۔ خطِ مذکور یہ ہے: از عاجز فقیر محمد شمس الحق عفي عنہ بخدمت شریف جامع الفضائل محبی مکرمی مولوی ثنا اللہ صاحب دامت محبتکم! بعد سلام علیکم ورحم اللہ و برکاتہ! محبت نامہ کارڈ ڈیانواں آکر وصول پایا اور یوم دوم رجسٹری بھی دہلی چاندنی چوک کوٹھی حاجی علی جان مرحوم مولوی حافظ عبد الغفار صاحب کے پاس روانہ کر دیا، اور تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہم عرصہ سے علیل ہیں اور ضعف غالب ہوا جاتا ہے اور غذا بہت کم، اس لیے بنظرِ تبدیلِ آب و ہوا کے ڈیانواں سے مع سامانِ سفر کے روانہ ہوئے اور پہلے جبلِ راجگیر پر اقامت چاہتے تھے، پھر بعد یک ماہ کے سفرِ دہلی وغیرہ کرتے، اسی خیال سے اپنے طالب العلم سب کو بھی رخصت کر دیا اور سب کام کو بند کر کے روانہ ہوئے۔ حاجی زکریا خاں صاحب کا اصرار تھا کہ ملک متوسط کی طرف روانہ ہوں اور انھوں نے کوئی دقیقہ اصرار کا اٹھا نہیں رکھا، مگر چونکہ خیال جبل راجگیر کا تھا، اس لیے ملک متوسط کی طرف نہیں گئے اور راجگیر کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر عرصہ ایک سال سے اطراف پٹنہ و بہار میں سخت طاعون ہے اور بہت لوگ نقصان ہوئے۔ بعد روانگی میرے معلوم ہوا کہ ڈیانواں میں بھی طاعون آگیا اور بہت زور ہے۔ مجبوراً نہایت حیرانی و پریشانی کی حالت میں واپس آئے اور اللہ اللہ علامت {يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ } کی پایا۔ ایسا چھوٹا قریہ اور یہ حالت، اللہ تعالی رحم فرماوے اور امن عطا کرے۔ میرے سارے خدام بیمار اور بعض بعض بخوف دوسری دوسری جگہوں میں چلے گئے، عجیب حالت نازک ہے، اللہ تعالیٰ رحم فرماوے۔ میرے مختار و منشی اور جو لوگ کام دفتر کا کرنے والے ہیں سب کے سب