کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 120
روئیں مگر افسوس یاران ہمدم بھی دور ہیں ان کا لقا بھی کب نصیب ہوتا ہے:
فعوجوا بي علی آثار لیلی و ما یدري الغریب متی یعود‘‘[1]
علامہ ثناء اللہ امرتسری کا تعزیتی شذرہ:
علامہ کبیر ثناء اللہ امر تسری نے اپنے ہفت روزہ اخبا ر ’’اہلِ حدیث‘‘ میں شیخ الاسلام امام شمس الحق عظیم آبادی کی وفات پر تعزیتی شذرہ رقم کیا، جسے یہاں بطور یاد گار من و عن نقل کرتا ہوں :
مولا نا شمس الحق مرحوم
ہر آنکہ زاد بنا چار بایدش نوشید ز جام دہر کل من علیہا فان[2]
پروردگار کے حکم کے آگے چارہ نہیں ۔ بڑے بڑے انبیا، اولیا، اصدقا کے لیے بھی یہی راہ ہے جو ہم گناہگاروں کے لیے، مگر نقصان خصوصاً ناقابلِ تلافی نقصان پر صدمہ ہونا ایک فطری امر ہے۔ مولانا شمس الحق مرحوم کو جو لوگ جانتے ہیں ، ان کے لیے تو مرحوم کا نام ہی کافی ہے، مگر جو لوگ مغفور کو نہیں جانتے ان کے لیے اتنا بتلانا کفایت کرتا ہے کہ مولانا اس قحط الرجال کے زمانہ میں ایک بے نظیر عالم تھے۔ تصنیف و تالیف مع تدریس آپ کا شغل تھا۔ باوجود ایک اچھے خاصے رئیس ہونے کے دینی خدمات میں شب و روز مشغول تھے۔ فنِ حدیث کا کتب خانہ اتنا تھا کہ ندوۃ العلماء نے جو بنارس میں پرانی کتابوں کی نمایش کی تھی تو مولانا کے کتب خانہ سے بہت سی کتابیں آئیں تھیں ۔ مطبع دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن بھی مرحوم کا ممنون و مرہون احسان تھا۔
’’فنِ حدیث کے جملہ شعبوں سے آپ کو شوق ہی نہ تھا بلکہ شغف تھا، آپ نے بہت سی کتب حدیث کی شرحیں عربی میں لکھیں ، غرض اچھے خاصے جامع محدث کی حیثیت سے تھے۔ موضع ڈیانواں ضلع پٹنہ کے رئیس تھے، اہلِ حدیث کانفرنس کے امین اور نعم الامین تھے۔اخلاق کی یہ کیفیت تھی کہ کبھی آپ کی پیشانی پر بل نہیں آیا، بلکہ حدیث شریف
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ اپریل ۱۹۱۱ء
[2] ’’ہر آدمی جو پیدا ہوا ہے تو وہ چار و ناچار زمانے کے ہاتھ سے ’’کل من علیہا من فان‘‘ کا جام ضرور پیے گا۔‘‘