کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 119
کتب کے مصنف تھے۔ بنگلہ دیش میں محصورین پاکستان کے لیے ان کی خدمات بھی قابلِ قدر ہیں ۔ انھوں نے ۴ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو کراچی میں وفات پائی۔
علالت و وفات:
محدث کبیر علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے ۱۹ ربیع الاول ۱۳۲۹ھ/ ۲۱ مارچ ۱۹۱۱ء کو بروز شنبہ (منگل) کو ۶ بجے صبح بعارضۂ طاعون وفات پائی۔ محدثِ کبیر کی وفات سے بر عظیم پاک و ہند کے دینی حلقوں پر حزن و ملال کی فضا چھا گئی۔
علامہ عبد العزیز رحیم آبادی کے تاثرات:
علامہ کبیر ثنا اللہ امرتسری لکھتے ہیں :
’’مولانا شمس الحق کے غروب پر جس قدر جماعت اہلِ حدیث کو صدمہ ہوا، اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا، عموماً ہر جگہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ دعائے مغفرت کی گئی جو مولانا شمس الحق مرحوم کی قبولیت کی علامت ہے- …. مولانا مرحوم کی جدائی سے ان کے احباب کو جو صدمہ ہوا اس کے اظہار کے لیے مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آبادی کا ایک خط نقل کیا جاتا ہے۔ مولانا موصوف فرماتے ہیں :
ِِمیں ڈیانواں گیا تھا، شب کو مکان واپس آیا ہوں ۔ انتقال پر ملال مولانا شمس الحق صاحب ۔غفرلہ اللّٰه و رحمہ و رضي عنہ وأدخلہ جنۃ نعیم۔ سے دل پاش پاش ہے۔ اس وقت میرا حال اس شعر کا مصداق ہے۔
لگاؤں تو کیا دل لگاؤں کسی سے؟ رہا ہی نہیں دل لگانے کے قابل
اس مکان کی کیفیت و حالت بھولتی نہیں ہے۔آہ کیا تھا کیا ہو گیا ؏
ہمرہاں رفتند و خاکستر نشینم کردہ اند[1]
اس وقت دل کا حال یہ ہے کہ جو یار و احباب زندہ ہیں ، غنیمت معلوم ہوتے ہیں ۔ نہ معلوم کون کس وقت ساتھ چھوڑ دے گا جی چاہتا ہے کہ اپنے یاروں سے لپٹ کر خوب
[1] ’’ساتھی مجھے راکھ پر بیٹھا چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘