کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 118
آثارِ تقویٰ:
عوام الناس کی اصلاح و ہدایت ممدوح کا مطمحِ نظر تھا، اس لیے وعظ و ارشاد میں بڑے ساعی تھے۔ آپ کی نانی بزرگوار فرمایا کرتی تھیں :
’’تم میرے عزیز کے عزیز ہو، مگر جس وقت اللہ کی باتیں سناتے ہو، اس وقت نہایت بزرگ معلوم ہوتے ہو۔‘‘[1]
علامہ شب زندہ دار بزرگ تھے۔ حدیث کا نور ان کے چہرے پر مرتسم تھا اور تقویٰ و للہیت کے آثار ان کے اعمال میں نمایاں اور روشن۔ان کے تلمیذِ رشید مولانا ابو القاسم سیفؔ بنارسی لکھتے ہیں :
’’آپ صفات: صدق، حیا، سخا، ثقاہت، دیانت، امانت، عدالت کے جامع اور ملازم جمعہ و جماعات اور شب زندہ دار تھے۔‘‘[2]
اخلاق کا یہ حال تھا کہ کبھی پیشانی پر شکن نہیں پڑتی تھی۔ تلخ سے تلخ باتوں کو بھی ہنس کر نظر انداز کر دیتے تھے۔
نکاح و اولاد:
زمانہ طالب علمی کے دوران ہی محدث شمس الحق ڈیانوی کا نکاح ۱۵ ربیع الاول ۱۲۹۴ھ کو شیخ عبد اللطیف صدیقی چھپروی کی صاحبزادی سے ہوا تھا۔ جب آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو آپ کا دوسرا عقد بھی شیخ عبد اللطیف ہی کی دوسری صاحبزادی سے ہوا۔ دونوں بیویوں سے اللہ تعالی نے تین بیٹے اور چھے بیٹیاں عطا کیں ۔ دو صاحبزادے مولانا حکیم محمد ادریس اور مولانا حافظ محمد ایوب سنِ شعور سے گزرے، دونوں ہی علومِ دینیہ کے ماہر اور جید عالم و فاضل تھے۔ اول الذکر نے طویل عمر پا کر دسمبر ۱۹۶۰ء کو ڈھاکہ میں وفات پائی۔ جبکہ ثانی الذکر نے نومبر ۱۹۲۴ء میں صادق پور پٹنہ میں وفات پائی۔ محدث ڈیانوی کے احفاد میں مولانا عبد اللہ ندوی بن حکیم محمد ادریس ندوہ کے فاضل جید عالم تھے، لیکن عین عالمِ شباب میں ۱۹۳۹ء کو وفات پائی۔ جب کہ ایک دوسرے حفید محمد احسن اللہ تھے جو کئی ایک
[1] یادگار گوہری (ص: ۳۹)
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر): ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۹ء