کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 117
بچھاون جھاڑنے کے وقت روپے ملے اور کتابیں ایک طرف رکھی ملیں ۔ اتفاقاً مولوی محمد صاحب صادق پور پٹنہ پہنچے اور اس کمترین سے ملاقات ہوئی۔ دو روز صادق پور میں مہمان رہے کہ علامہ ابو الطیب بھی پٹنہ پہنچے اور جب مولوی محمد صاحب کی خبر پائی تو مجھے روپے دے کر فرمایا کہ یہ ڈیانواں سے روپے اور کتاب چھوڑ کر چلے آئے ہیں ، ان کو یہ روپے کسی طرح دے دو، میں چلنے کے وقت روپے مولوی محمد صاحب کو دینے لگا اور علامہ ابو الطیب کی جانب سے معذرت کی اور اصرار کیا تو بہت ناخوش ہوئے اور مجھ سے فرمایا: أنت بطال! اآخذ الأدنی، و لم یحصل لي الأعلی؟!‘‘[1]
علامہ ثناء اللہ امرتسری محدث ابو الطیب شمس الحق کے حسنِ اخلاق کا حسین مرقع پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اخلاق کی یہ کیفیت تھی کہ کبھی آپ کی پیشانی پر بل نہیں دیکھا، بلکہ حدیث شریف ’’تبسمک في وجہ أخیک صدقۃ‘‘ ’’ہنس کر بھائی سے ملنا بھی صدقہ کا ثواب ہے‘‘ پر پورے عامل تھے۔ میں نے اس حدیث کے عامل علما کو کم دیکھا ہے۔‘‘[2]
مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی لکھنوی، محدث عظیم آبادی کے تذکرے میں رقمطراز ہیں :
’’کان حلیما متواضعا کریما عفیفا، صاحب صلاح و طریق ظاہرۃ، محبا لأھل العلم ۔۔۔۔۔۔ و کان یحبني للّٰه سبحانہ، و کنت أحبہ، و کانت بیني و بینہ من المراسل ما لم تنقطع إلی یوم وفاتہ‘‘[3]
امام عبدالجبار غزنوی اپنے مکتوبِ گرامی بنام امام ابو الطیب شمس الحق مرقومہ ۲۷ ربیع الاول ۱۳۱۱ھ میں لکھتے ہیں :
’’معدن محاسن اخلاق و شیم مجمع مکارم اعمال کرم اخ مکرم حب محترم مکرمی مولوی محمد شمس الحق صاحب موفق خیرات و حسنات بودہ معزز دارین و مکرم کونین شد۔‘‘[4]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۸ اپریل ۱۹۱۱ء
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۱ مارچ ۱۹۱۱ء
[3] نزہۃ الخواطر (ص: ۱۲۴۳)
[4] یادگار گوہری (ص: ۴۰)