کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 116
و المتروکین‘‘ کے آخر میں علامہ عظیم آبادی کی تقریظ میں اڑتیس اشعار مندرج ہیں ۔[1] اپنے تلمیذِ رشید شیخ عبد الحفیظ الفاسی کے نام مکتوب میں قرآن کریم سے متعلق عربی قصیدہ ہے۔[2] مزید جستجو کی جائے تو اس کے سوا بھی علامہ کے ذوقِ شعر و سخن کی مثالیں ملیں گی۔ ڈاکٹر حامد علی خان نے ’’ہندوستان میں عربی شاعری‘‘ (مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی) میں عربی شعرا کی فہرست میں محدث عظیم آبادی کا شمار بھی کیا ہے۔ اخلاق و شخصیت: محدث ڈیانوی کی پوری زندگی علمِ حدیث کی نشر و اشاعت میں بسر ہوئی۔ آپ کا شمار تیرھویں و چودھویں صدی کے اکابر محدثین میں ہوتا ہے۔ آپ محض طبقہ محدثین کے علمبردار ہی نہیں ، بلکہ احادیث و سنن کے عامل بھی تھے، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ قلبی نسبت تھی، جس کی مہک سے آپ کے گوشہ ہائے دل کا کونہ کونہ معطر تھا۔ پوری زندگی میں اتباعِ سنن و آثار کی روح کار فرما تھی، باوجود اس کے کہ ایک بہت بڑے خانوادہ کے رکن تھے اور ممدوح کا شمار صوبہ بہار کے کبار رؤسا میں ہوتا تھا، مگر مزاج میں کِبر و نخوت کا شائبہ تک نہ تھا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دین سے غیر معمولی شغف نے موصوف کی طبیعت میں عجز و فروتنی پیدا کر دی تھی۔ مولانا عبد السلام مبارکپوری روایت کرتے ہیں : ’’۱۳۲۸ھ کا ایک واقعہ ہے کہ مولوی محمد صاحب نجدی جو فنونِ ادبیہ کے علاوہ حدیثیہ میں بھی بہت ہی دستگاہ رکھتے تھے، بھوپال سے، بعد انتقال شیخ حسین عرب صاحب، ڈیانواں تشریف لائے۔ ان دنوں علامہ ابو الطیب کو زمینداری کا ایک بہت بڑا مقدمہ ہائیکورٹ میں پیش تھا، مولانا مرحوم اس کے الجھاؤ میں تھے۔ سبق میں کمی ہوئی تو وہ بگڑ کھڑے ہوئے، مولانا مرحوم نے معذرت کی اور نقد روپے اور بہت سی کتابیں پیش کیں اور کہا: اس وقت مہلت کم ہے، انشا اللہ میں آپ کے حسبِ خواہ پڑھاؤں گا۔ وہ بگڑے دل علی الصبح روپیوں کو آپ کے بچھاون کے نیچے اورکتابوں کو کمرے میں رکھ کر چل دیے، صبح کو
[1] التاریخ الصغیر مع کتاب الضعفاء و المتروکین (ص: ۴۴۔۴۶) [2] الوجازۃ فی الاجازۃ (ص: ۱۱۰، ۱۱۱)