کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 109
حسن صاحب دیوبندی ہیں ، امید ہے کہ جناب ان ہر دو صاحبوں کو ضرور ہی منظور کریں گے، تاکہ احقر آپ کے سوالات کا جواب لکھے۔‘‘[1]
محدث ڈیانوی کے ایک معاصر مولانا حکیم ابو یحییٰ محمد شاہجہانپوری اپنی مشہور کتاب ’’الارشاد الی سبیل الرشاد‘‘ میں ایک مقام پر رقمطراز ہیں :
’’یہ کتاب (قیام اللیل للمروزی) اپنے استاد بھائی، جن کے ساتھ ہم کو اس نسبت کے حاصل ہونے پر فخر ہے، شارحِ حدیث جناب مولانا مولوی ابی الطیب محمد شمس الحق صاحب عظیم آبادی سلمہ اللہ ذو الایادی، کے پاس دیکھی۔‘‘[2]
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی، محدث عظیم آبادی کے علم و فضل کا اعتراف ان الفاظ میں فرماتے ہیں :
’’میاں نذیر حسین کے دوسرے شاگرد تھے علامہ شمس الحق عظیم آبادی، یہ اتنے بڑے محدث ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے زما نے میں ان سے بڑا محدث کوئی نہیں تھا، یا اگر تھے تو ایک دو ہی تھے تو شاید یہ مبا لغہ نہیں ہو گا۔‘‘[3]
ان علمائے ذی اکرام کے بعد دیگر علمائے معاصرین و متاخرین کے اقوال و آرا کو باعثِ طوالت سمجھتے ہوئے قلم زد کرتے ہیں ۔
متعدد علما و فضلا نے محدث ڈیانوی کے بارگاہِ علم و فضل میں اپنی عقیدت کا اظہار عربی، فارسی اور اردو کے متعدد قصائد میں کیا ہے۔ جو ’’ھدایۃ الطالبین إلی مکاتیب الکاملین‘‘ میں مذکور ہے۔ یہ کتاب ۱۳۱۱ھ سے بھی قبل شائع ہوئی تھی۔
بیرونِ ہند بلادِ اسلامی میں مقبولیت:
اسلامی ہند میں ایسے معدودے چند ہی علماء ہوں گے جنھیں بلادِ ہند سے باہر عرب و حجاز اور دیگر بلادِ اسلامی میں ایسی غیر معمولی مقبولیت نصیب ہوئی ہو جو علامہ عظیم آبادی کو حاصل ہوئی۔ ہر گزرتے
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۹ اگست ۱۹۱۰ء
[2] الارشاد الیٰ سبیل الرشاد (ص: ۲۷)
[3] محاضراتِ حدیث (ص: ۴۲۹۔۴۳۰)