کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 108
ابو القاسم سیف بنارسی لکھتے ہیں :
’’پرانے رسم الخط عربی غیر منقوط کو آپ بلا تکلف پڑھتے۔ اکثر کتب پر مفید حاشیے لکھے۔ قاضی شوکانی سے نیل الاوطار میں حوالہ اسماے رجال میں جو سہو ہوا، اس کو آپ نے گرفت کر کے حاشیہ پر لکھا ہے۔ جامع ترمذی مطبوعہ ہند میں جو دوسرے صفحہ پر حدثنا محمد بن حمید بن اسماعیل کے بجائے محمد بن اسماعیل البخاری طبع ہوگیا ہے، اس فاش غلطی پر سوائے آپ کے اور کسی کو تنبہ نہیں ہوا۔‘‘[1]
محدثِ کبیر امام شمس الحق کے علمی فضائل و کمالات کا اعتراف ان کے معاصرین نے کیا، ان کے اساتذہ ان پر فخر کرتے اور تلامذہ اپنی قسمت پر نازاں ہوتے۔ ان کے ایک استاذِ حدیث شیخ الکل سید میاں نذیر حسین دہلوی نے اپنے متعدد مکاتیب میں ’’جامع الحسنات والکمالات، الفاضل النحریر، صاحب التقریر و التحریر، الحبر الموفق‘‘ جیسے الفاظ سے مخاطب کیا۔ ایک دوسرے استاذِ حدیث شیخ حسین بن محسن یمانی انھیں ’’شیخ الإسلام و المسلمین، إمام المحققین والأئمۃ المدققین، صاحب التآلیف المجیدۃ و التصانیف المفیدۃ، اشتھر بالفضائل في الآفاق، المحرز قصب الکمال في مضمار السباق‘‘ جیسے القابات سے متصف فرماتے۔
مولانا عبد الجبار غزنوی، علامہ عظیم آبادی کے ایک اہم معاصر اور ان کے عزیز ترین اصحاب میں سے ایک تھے۔ ان کی نظر میں محدث عظیم آبادی کا کیا مقام تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس عہد کے مشہور بدعتی عمر کریم پٹنوی نے صحیح بخاری اور امام بخاری کے خلاف زبانِ طعن کو دراز کیا تو مولانا عبد الجبار غزنوی نے اسے تحریری مناظرے کی پیشکش کی اور اس کے لیے دو منصفوں کو مقرر کرنے کی تجویز پیش کی۔ چنانچہ مولا نا غزنوی لکھتے ہیں :
’’دو منصف عالم متبحر ایک اہلِ حدیث اور ایک حنفی المذہب مقرر کریں ۔ اس وقت اہلِ حدیث میں متبحر فی علم الحدیث مولوی محمد شمس الحق صاحب ڈیانوی ہیں اور احناف میں مولوی محمود
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۹ء