کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 106
بلکہ ان کے ہمنوا خود امام صاحب کے جلیل القدر تلامذۂ ذی اکرام امام ابو یوسف، امام محمد، امام عبد اللہ بن مبارک اور امام زفر رحمہم اللہ بھی ہیں ۔ کیا مولانا سہارن پوری کے معتقدین ان کے متعلق بھی یہی رائے دے سکتے ہیں ؟ ایسا ہی الزام مولانا محمد یوسف بنوری نے بھی محدث عظیم آبادی پر عائد کیا ہے اور ایسا کرنے میں ان پر اپنے اساتذہ کی تائید کا جذبہ کار فرما تھا۔ جہاں تک مولانا سہارن پوری کی ’’عون المعبود‘‘ سے متعلق اس رائے کا تعلق ہے: ’’ھذا شرح قاصر عن أن یسمی شرحا‘‘[1] ’’یہ شرح، شرح کہلانے سے قاصر ہے۔‘‘ یعنی ’’عون المعبود‘‘ شرح کہلانے کی حقدار نہیں تو اس رائے کی حقیقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود علامہ سہارن پوری ’’بذل المجہود‘‘ میں ’’عون المعبود‘‘ کے حوالے بکثرت دیتے ہیں ۔ مولانا عبد المالک آروی اپنے ایک مضمون’’بہار میں علمِ حدیث‘‘ میں ’’عون المعبود‘‘ اور ’’بذل المجہود‘‘ کاموازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’حضرت علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی نے عون المعبود کے نام سے ابو داود کی شرح لکھی، اس کی دو ضخیم جلدیں میرے پیشِ نظر ہیں ۔ اس میں آپ نے ایسے ایسے محدثانہ نکات پیش کیے ہیں کہ بے اختیار زبان سے صدائے آفریں نکلتی ہے۔ عون المعبود کی اشاعت کے بعد مو لانا خلیل احمد سہارن پوری نے بذل المجہود کے نام سے ابو داود کی شرح لکھی، جو علمی دنیا میں متداول ہے۔ کسی خاص امام کے نظریات کی پابندیاں حریتِ فکر اور وسعتِ نظر پر جو برا اثر ڈالتی ہیں ، ان سے عون المعبود کے صفحات منزہ ہیں اور یہی بذل المجہود اور عون المعبود میں مابہ الامتیاز ہے۔‘‘[2] ہمارے فاضل معاصر اور غیر جانبدار صاحبِ علم ڈاکٹر محمود احمد غازی کی رائے بھی ملاحظہ کیجیے: ’’مولانا خلیل احمد نے سنن ابو داود کی شرح بذل المجہود کے نام سے لکھی۔ بذل المجہود بھی پندرہ بیس جلدوں میں ہے۔ عرب دنیا میں کئی بار چھپی ہے۔ مصر، ہندوستان، پاکستان اور
[1] بذل المجہود (۱/۱) [2] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء