کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 105
جو شخص بھی حسد و عداوت کی وجہ سے آپ کی مذمت کرتا ہے وہ خود آپ کی نہایت شان و علو قدر کی دلیل ہے اور اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ چمگادڑ کی آنکھوں کی چکا چوند سے سورج کی روشنی کو کوئی زوال و نقصان نہیں پہنچتا۔ لیکن باوجود ان سب باتوں کے امام صاحب کے لیے عصمت ثابت نہیں ہو سکتی، لہٰذا ان سے بھی خطا و لغزش ہو سکتی ہے۔ ’’ان فضائلِ کثیرہ کے ذکر و اعتراف سے وہ اعتراضات رفع نہیں ہو سکتے جو امام بخاری نے امام صاحب پر مخالفتِ کتاب و سنت کے عائد کیے ہیں ، لیکن ان کی بعض لغزشوں کی وجہ سے ان کی شان میں گستاخی کا معاملہ بھی جائز نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ مجتہد تھے اور مجتہد سے خطا و صواب، لغزش و ثبات دونوں ہی ہوتی ہیں ۔ خود امام بخاری کو دیکھیے کہ باوجود اس اختلاف کے انھوں نے امام صاحب کا ادب ملحوظ رکھا اور آپ کا اسمِ شریف بھی اس لیے نہیں لکھا اور بعض الناس سے توریہ کیا، تاکہ جاننے والے جان لیں اور نہ جاننے والے نہ جانیں ۔ یہی طریقہ ان سب لوگوں کا ہونا چاہیے جو انصار السنہ ہونے کے مدعی ہیں کہ امام صاحب کے بارے میں کسی قسم کی بے ادبی نہ کریں اور امام بخاری کی وجہ سے وہ امام صاحب کو برا بھلا کہنے کا جواز بھی نہ نکالیں ، کیونکہ ان دونوں کی مثال ایسی ہے کہ دو شیر آپس میں لڑتے ہوں تو کیا لومڑیوں اور بھیڑیوں کو ان کے درمیان پڑنے کا موقع ہے؟ یا جیسے دو قوی ہیکل پہلوان آپس میں نبرد آزما ہوں تو کیا عورتوں بچوں کے لیے ان کے درمیان مداخلت کرنے کی کوئی وجہ جواز ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ اگر ایسی غلطی کریں گے تو خود ہی ہلاک ہوں گے۔‘‘[1] اور یہ جو مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے محدثِ کبیر شمس الحق پر الزام عائد کیا ہے کہ ’’انھوں نے ائمہ کرام کی شان میں طعن و تشنیع کی حدود سے تجاوز کیا ہے‘‘ تو ایسا صرف مسلکی عصبیت کی بنا پر کیا ہے۔ جہاں تک امام صاحب سے اختلاف کا تعلق ہے تو اس ’’جرم‘‘ میں محدث عظیم آبادی تنہا نہیں ،
[1] رفع الالتباس عن بعض الناس (ص: ۳۴)، یہاں اس عربی عبارت کا ترجمہ ایک حنفی عالم مولانا احمد رضا بجنوری کے قلم سے ہے۔ ملاحظہ ہو: انوار الباری (۲/ ۴۱۱۔۴۱۲)