کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 102
کے اساتذہ سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ حسین بن محسن یمانی نے اپنی تحریروں میں ان کے حوالے دیے۔ معاصرین میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، علامہ عبد الرحمان مبارک پوری، مولانا عبد التواب محدث ملتانی وغیرہم نے ان کی تصانیفِ علمیہ سے استفادہ کیا اور اس کے حوالے دیے۔ علمائے عرب میں سے شیخ احمد شاکر مصری، سید رشید رضا مصری، شیخ محمود خطاب سبکی مالکی، امام ناصر الدین البانی، شیخ ابن باز، شیخ محمد عثمان جمعہ اور ایک کثیر تعداد نے محدث عظیم آبادی کی تصنیفات سے استفادہ کیا۔
عہدِ حاضر میں بریلویوں اور دیوبندیوں کے کبار علما، مثلاً: مفتی محمد تقی عثمانی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اختلافِ فکر و نظر کے باوجود محدث ڈیانوی کے حوالے اپنی کتابوں میں دیے ہیں اور استفادہ کیا ہے۔ مولانا عبد الحمید رحمانی لکھتے ہیں :
’’آپ کی تصنیفات کی سب سے بڑی خصوصیت پوری ذہانت و فطانت کے ساتھ علومِ حدیث و فقہ کے مشکل سے مشکل مسائل کا حل اور اسانید میں مہارت اور ان پر مجتہدانہ کلام ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو، آپ اسے تشنہ نہیں چھوڑتے۔ قوتِ فیصلہ اور صحیح نتیجے تک پہنچ جانے کے ملکہ کے اعتبار سے آپ محدثین سلف کی یادگار تھے۔ میں نے عرب دنیا میں عموماً یہ سنا کہ تحقیق و تدقیق اور قوتِ اجتہاد میں آپ کا درجہ حافظ ابن حجر سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ آپ کی تصنیفات اس وقت عرب دنیا میں بڑی تیزی سے شائع ہو رہی ہیں ۔ ایک مرتبہ ہمیں بعض ذرائع سے علم ہوا کہ ’’غایۃ المقصود‘‘ پاکستان کے کسی عالم کو مل گئی ہے، جب یہ خبر ہم نے مشہور حجازی عالم شیخ سلیمان صنیع کو سنائی تو انھوں نے ارشاد فرمایا کہ اگر کتاب مل گئی ہو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ پوری بتیس جلدیں اپنے مصارف پر چھپوا کر مفت تقسیم کرا دوں گا۔‘‘[1]
ہمارے فاضل معاصر مولانا ارشاد الحق اثری حضرت محدث ڈیانوی کی تصنیفی کاوشوں سے بالخصوص اور دیگر علمائے حدیث کی مساعی سے بالعموم استفادہ کرنے کے بعد راہِ تحقیق سے آشنا ہوئے۔
[1] مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی (۲/ ۳۵)