کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 8
ان کا اس پر قلم رواں دواں ہے۔اس تحقیقی وتصنیفی زندگی میں انھیں کئی ایک مشکلات کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ اور پھر وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ قلم کی توانائی عموماً بہت کم ہوجاتی ہے لیکن ان پراللہ رب العزت کا خاص کرم ہے کہ چند سالوں میں ان کی درجن بھر کتب شائع ہوچکی ہیں اور ہرکتاب کم از کم پانچ چھ سوصفحات پر مشتمل ہے۔وطن عزیز کے معروضی حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ایسے ابترحالات میں قلم کو اپنا رفیق زندگی بنائے رکھنا بھی حضرت بھٹی صاحب کی کرامت ہے۔اس سارےتصنیفی وتحقیقی کام میں ان کا کوئی معاون نہیں۔وہ اکیلے یہ کام کرتے ہیں۔کسی کو املانہیں کراتے، کوئی ان کے حوالے تلاش نہیں کرتا۔کوئی ان کے لیے لائبریریوں کے چکر نہیں کاٹتا کہ جاکر لائبریری سے کتاب لے آئے اور بھٹی صاحب کا قیمتی وقت بچ جائے۔
بھٹی صاحب اس وقت ماشاء اللہ نہایت معروف قلم کار ہیں، اہلحدیث میں بھی اور غیر اہل حدیث حلقوں میں بھی ان کا جادوسرچڑھ کربول رہاہے ان کو چاہنے والے ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہیں۔پاکستان سے باہر بھی ان کی شہرت جاپہنچی ہے۔ہندوستان میں ان کی تصنیفات طبع ہورہی ہیں۔بلکہ خود بھٹی صاحب کی حیات وخدمات کے اعتراف میں وہاں کے اہل قلم مسلسل لکھ رہے ہیں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ان پر ایم فل کا مقالہ لکھا گیا اور چھپ بھی گیا۔اب کوئی دن کی بات ہے جب وہ مستقبل کے کسی”ڈاکٹر“ کی تحقیق کی نذر ہوجائیں گے یعنی ان کی زندگی کے بند اوراق کھولے جائیں گے، ان کی شخصیت کی پرتیں تلاش کی جائیں گی، ”افسوس“ صرف اس بات کا ہے کہ جناب بھٹی صاحب کو یہ شہرت، یہ محبت، یہ عقیدت”عالم پیری“ میں حاصل ہوئی۔اس دور میں جب کہ انھوں نے حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کرلی، اپنی مختصر ریش مبارک کو”، مسنون“ طول بھی دے دیا اور اس کی سفیدی جو خضاب کے”اندھیرے“ میں چھپی ہوئی تھی، اسے اجالے میں لے آئے۔
ہمارے لیے واجب صداحترام جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کو شہرت بلکہ عالم گیر شہرت ملی ہے۔اب انھیں اس کے تقاضے بھی نباہنے پڑ رہے ہیں۔ان کے چاہنے والے انھیں نہایت محبت سے اپنے ہاں بلاتے ہیں۔سکہ بند واعظ اور پیشہ ور خطیب نہ ہونے کے باوجود انھیں جانا پڑتا ہے۔ان کے پاس اپنی سواری نہیں۔چنانچہ ان کے وقت کا اچھاخاصہ حصہ ان تقریبات میں آمدورفت کی نذر ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود بھٹی صاحب مسلسل لکھ رہے ہیں۔مکتبہ قدوسیہ کو ان کی اکثر کتب شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔جناب بھٹی صاحب اخلاق عالیہ کی بلندیوں پرفائز ہیں۔اس لیے آپ ان کی کتاب کے آغاز میں”حرفے چند“ میں اپنے ناشر کے متعلق ان سے کوئی شکوہ نہیں سنیں گے حالانکہ ہم نے ان کی کتابوں کی اشاعت کی تاخیرمیں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔وہ ناراض ہوتے ہیں، ہمیں ڈانٹتے ڈپٹتے ہیں۔ان کی ناراضی میں بھی شفقت ومحبت نمایاں ہوتی ہے۔اس لیے کہ ہمارا ان سے پبلشر اور مصنف والا رشتہ کبھی رہا ہی نہیں۔وہ ہمارے لیے اس بھی قابل احترام ہیں کہ والدگرامی قدر مولانا عبدالخالق قدوسی رحمہ اللہ بھٹی صاحب کے دوستوں میں سے تھے۔
اللہ رب العزت محترم جناب بھٹی صاحب کے قلم کو اسی طرح شاداب اور توانا رکھے۔وہ لکھتے رہیں، ہم شائع کرتے رہیں اور آپ پڑھتے رہیں۔امید ہے قارئین کرام نے اس دعا پر ضرور آمین کہی ہوگی۔اہلحدیث نے بالجبر اور احناف نے بالسر کہ بھٹی صاحب کے چاہنے والوں میں احناف کی بھی کمی نہیں۔ان شاء اللہ بہت جلد اس سلسلے کی آئندہ کتاب”گلستان حدیث“ کے”حروف اول“ میں آپ سے ملاقات ہوگی۔اس کی کمپوزنگ ہورہی ہے۔اس کی جلد اشاعت کے لیے دعا کیجئے گا۔مجھے یقین ہے کہ جناب بھٹی صاحب کے حلقہ قارئین میں مستجاب الدعوات بزرگوں کی کمی نہیں۔(عمر فاروق قدوسی)