کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 75
سورج گڑھ اور اس کے نواح سے جوشخص دہلی جاتا میاں صاحب اس کا بہت خیال رکھتے اور اس کی خدمت وتواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ اساتذہ کی تعظیم جناب میاں صاحب اپنے اساتذہ کا ذکر نہایت مؤدبانہ الفاظ میں کرتے تھے۔ان سے تعلق کسی بات کا تذکرہ فرماتے تو بصورت جمع ”ہمارے حضرات“ کے الفاظ استعمال فرماتے۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی اور حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے اسمائے گرامی بالخصوص بدرجہ غایت ادب سے زبان پر لاتے۔قرآن اور حدیث کی کسی عبارت کاترجمہ کرنا مقصود ہوتا تو فرماتے مجھ سے ا س کا ترجمہ سنو جو ہمارے بزرگوں سے سینہ بہ سینہ چلا آرہاہے اور بیان مسائل میں بھی انہی بزرگان عالی قدر کے اقوال بسند پیش فرماتےاورارشاد ہوتا“ ہمارے حضرات یوں فرماتے ہیں۔“ اس پر کوئی طالب علم اگریہ کہہ دیتا کہ حضرات کا کہناسند نہیں ہوسکتا۔ اصل سند قرآن وحدیث ہے تو خفگی کانداز میں فرماتے۔”تم ان کے متعلق ایسی باتیں کرتے ہو، کیا یہ حضرات گھس کٹے تھے؟یوں ہی باتیں بناتے تھے؟“ ایک مرتبہ میاں صاحب ممدوح رحیم آبادسے آرہے تھے۔مولانامحمد ابراہیم آروی بھی ساتھ تھے۔انہوں نے خواتین کے لباس کے بارے میں پوچھا کہ ان کے لیے ساڑھی پہننا جائز ہے یا ناجائز؟ فرمایا: ہمارےحضرات ساڑھی پہننے کوجائز قراردیتے تھے۔ مولانا آروی نے عرض کیا:حضرات کا کہنا حجت شرعی تو نہیں ہوسکتا۔ فرمایا:” تمہارے نزدیک یہ سب حضرات گھس کٹے تھے، تم ہی ایک شیخ چلی پیدا ہوئے ہو؟“ یوں تو میاں صاحب خاندان ولی اللٰہی کے سب ارکان کے مداح تھے اور ان کے علم وفضل کی تعریف فرماتے تھے لیکن حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اورمولانا اسماعیل شہید کی نسبت اکثر فرمایا کرتے کہ”میں ان دونوں داداپوتےکی فضیلت کا بہت قائل ہوں جو صرف قرآن وحدیث سےاستبناط مسائل کرتے تھے۔ان کی تحریروں سےایسا معلوم ہوتاہے کہ دریائے فیضان الٰہی جوش ماررہاہے۔“ جناب شاہ عبدالعزیز صاحب کے بارے میں فرماتے کہ افسوس ہے زمانہ شباب ہی میں ان کی بصارت جاتی رہی، لیکن ذہانت آخر وقت قائم رہی اور وہ بہت بڑی نعمت تھی جو بارگارہ الٰہی سے ان کو عطا ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ بخاری شریف پڑھا رہے تھے کہ کسی حدیث کی تائید میں شیخ سعدی کی بوستاں کا