کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 74
سے علیحدہ ہونا گوارا نہ کیا اور اسی سرزمین میں مرنے کو ترجیح دی۔ بیٹے کی وفات کا صدمہ اور نواسے نواسیوں سے پیار میاں صاحب کے ایک ہی بیٹے تھے مولانا سید شریف حسین اورایک بیٹی تھی جومیر شاہ جہاں صاحب کی اہلیہ تھیں۔بیٹے اور بیٹی دونوں کو تمام عمر میاں صاحب نے اپنے گھر رکھا۔پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو بھی کبھی اپنے سے جدا نہ کیا۔نواسے کا نام بدرالاسلام تھا۔اس کی وفات پر آپ کوسخت صدمہ ہوا، چنانچہ ایک خط میں مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی کو تحریر فرماتے ہیں:”از حادثہ جانکاہ انتقال قرۃ العین بدرالاسلام چہ گویم وچہ نویسم نہ جائے ستیز نہ پائے گریز، اناللہ وانا الیہ راجعون۔“ اکلوتے بیٹے مولانا سید شریف حسین نے آپ کے سامنے انتقال کیا۔مولانا عبدالغفارمیدانوی چھپروی نے تعزیتی خط لکھا تو جواب میں تحریر فرمایا۔ راہ چپ کروحریفانہ بہارازچمنم غنچہ من ماندم وہنگام شگفتن بگوشت مولوی حفاظت اللہ مرشد آبادی لکھتے ہیں کہ”مولوی سید شریف حسین صاحب کے انتقال کی خبر میں نے علی گڑھ میں سنی اوروہاں سے تعزیت کے لیے دہلی گیا۔اس وقت میاں صاحب مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔بے صبری کاکوئی جملہ آپ کی زبان مبارک سے نہیں سنا۔صرف اس قدر فرمایا دعاکرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی عاقبت بخیر کرے۔اکلوتا بیٹا کس قدر اپنے باپ کا لاڈلا ہوتا ہے، مگرمیاں شریف حسین لڑکپن سے بے تکلف تھے۔میں نے جوکھلایا وہی کھایااور جو پہنایا وہی پہنا، کوئی چیز خود مجھ سے کبھی طلب نہ کی۔“ علاوہ بیٹا بیٹی پوتےپوتیوں اور نواسے نواسیوں کے میاں صاحب کے دو بھائی بھی تھے، ایک کا نام مولوی سید سجاد حسین تھا اور دوسرے کا مولوی سیدتوسل حسین۔جب میاں صاحب مظفر پور یا رحیم آباد یا صوبہ بہار کے کسی اور مقام میں تشریف لے جاتےتو یہ دونوں بزرگ ملاقات کے لیے تشریف لاتے اور میاں صاحب خواہ کتنے ہی عدیم الفرصت اور دہلی کو واپسی کے لیے مستعجل ہوتے، یہ لوگ ضرور انھیں سورج گڑھ لے جاتے اور جب تک میاں صاحب ان دیار میں تشریف فرما رہتے، یہ دونوں بھائی ان کے ساتھ رہتے۔ بھائیوں کے علاوہ میاں صاحب اپنے بھتیجوں کو بھی بہت چاہتے تھے۔سید توسل حسین کے بیٹےمولوی محمد عبدالحفیظ کواپنے ساتھ دہلی لے گئےاور اچھی طرح ان کی تعلیم وتربیت فرمائی۔