کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 73
میاں صاحب کے دور کے ایک بہت بڑے عالم مولوی یار علی تھے جو حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے شاگرد تھے۔بہت لائق بزرگ تھے۔انھوں نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک شہر پورنیہ میں وکالت شروع کردی تھی۔تدریس کی طرف نہیں آئے۔ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت میاں صاحب نہایت حسرت انگیز لہجے میں اکثرفرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ پیادوں سے وہ کام لے لیتا ہے جو شہسواروں سے نہیں ہوسکتا، ورنہ آج مولوی یار علی اگردہلی میں بیٹھ کر درس دیتے تو ان کے سامنے کسی کا چراغ نہ جل سکتا، لیکن افسوس کہ پورنیہ میں وکالت کرنے لگے۔
بچوں سے محبت
بچوں سے میاں صاحب بے حد شفقت کا اظہار فرماتے تھے۔حضرت مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی(صاحب عون المعبود) کا شمار حضرت میاں صاحب کے ارشد تلامذہ میں ہوتا تھا۔وہ حضرت کی وفات سے چار مہینے قبل اپنے چھوٹے بیٹے حافظ ایوب کو(جو اس وقت قرآن مجید حفظ کررہا تھا) لے کر دہلی گئے اور میاں صاحب سے اس کے لیے دعا کی درخواست کی۔میاں صاحب اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔پھر قرآن سنانے کو کہا۔باوجود یہ کہ اس وقت میاں صاحب کو بہت ثقل سماع ہوگیاتھا، لیکن ہونٹوں کی حرکت سے غلط اور صحیح کا اندازہ کرکے برابرلقمہ دیتے جاتے تھے۔ اس کے بعد اس بچے کو ایک روپیہ انعام دیا جو طویل عرصے تک برکت کےطور پر مولانا شمس الحق صاحب کے گھر میں محفوظ رہا۔
اساتذہ کی اولاد کا احترام
دہلی شہر اورشرفا ئے دہلی سے حضرت میاں صاحب کو قلبی تعلق پیدا ہوگیاتھا۔بالخصوص خاندان شاہ ولی اللہ کے ارکان کا بے حداحترام کرتے تھے۔حضرت شاہ رفیع الدین کے ایک ہی بیٹھے تھے جو خورجہ رہتے تھے۔ان کی علمی دست گاہ زیادہ نہ تھی۔وہ دہلی اکثر آتے اور میاں صاحب سے ملاقات کرتے۔جب وہ مسجد میں داخل ہوتے تومیاں صاحب ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے اور انتہائی تکریم سے پیش آتے۔مفلوک الحال مغل شہزادوں کا بھی وہ بہت اکرام کرتے تھے۔بالعموم دلّی والوں سے ان کا یہی معاملہ تھا۔وفات سے پینتیس چالیس برس پہلے ان کے اعزہ واقارب اور اہل وطن نے بار بارکہا کہ آپ نے دلّی میں طویل عرصہ گزار لیا۔اب وطن آجائیں اور وہاں سکونت اختیار کرلیں تاکہ اس نواح کے لوگوں کو بھی اس سعادت سے بہرہ اندوز ہونے کا موقع ملے۔لیکن میاں صاحب نے حضرت شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز اورشاہ محمداسحاق کی مسند خلافت