کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 72
ملاقات کے لیے میاں صاحب کا حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا ضروری تھا۔
اب آگے چلیے!
قاری عبدالرحمان صاحب ان جوابات کی وجہ سے میاں صاحب سے سخت خفا ہوئے۔وہ قاری فیض محمد کو پریشان کرنا چاہتے تھے۔لیکن میاں صاحب کے جواب لکھنے کی بنا پر وہ اپنے اس منصوبے میں ناکام ہوگئے تھے۔
ایک دن قاری عبدالرحمان صاحب دہلی میں میاں صاحب کی مسجد میں آئے۔میاں صاحب بھی مسجد میں تشریف فرما تھے، لیکن قاری صاحب نے دوسری طرف رخ کرکے ایک شخص سے پوچھا کہ مولوی عبدالرب کہاں ہیں(عبدالرب صاحب حضرت میاں صاحب کے سالے تھے) میاں صاحب نے قاری عبدالرحمان کی آواز سنی تو ان کی طرف گئے اور زور سے ہاتھ پکڑ کر کہا:عبدالرب کل کا لونڈا جس کو میں نے مار مار کر پڑھایا، اس سے تمہارا کیا تعلق۔۔۔؟ طالب علمی کے زمانے میں، میں اور تم سات برس ایک حجرے میں رہے۔اس کا تمھیں کچھ خیال نہیں اور آج عبدالرب کے بارے میں پوچھتے ہوکہ کہاں ہے۔
اس طرح کہ باتیں کرکے میاں صاحب نے قاری عبدالرحمان کو اپنے پاس بٹھایا اور بے تکلفانہ ہنسی مذاق کی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
یہ تھا حضرت میاں صاحب کا برتاؤ اپنے دوستوں اور پرانے رفقاء کے ساتھ۔قاری فیض محمد سرہندی کی طرف سے جو جواب لکھا، وہ بھی دوستانہ اور قاری عبدالرحمان پانی پتی سےھ، جس انداز سے ملے وہ بھی دوستی کا آئینہ دار۔۔۔! نہ قاری فیض محمد پر کسی قسم کا احسان جتایا اور نہ قاری عبدالرحمان کی غصیلی طبیعت کا جواب غصے سے دیا۔
اللہ اللہ !یہ ہمارے بزرگ بھی کن اوصاف کے مالک تھے اور کس قسم کی عادات واطوار سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔خلوص وللہٰت کی نعمت عظمیٰ سے مالا مال۔ہر ایک کے ساتھ الحب اللہ کا مظاہرہ
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورتدریس کا جذبہ صادقہ
میاں صاحب کے دل میں اطاعت رسول کا جذبہ صادقہ کو ٹ کوٹ کر بھراتھا۔اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ تھا۔جب کوئی حدیث بیان فرماتے اوراس حدیث کے برعکس کوئی شخص کسی امام فقہ کا قول پیش کرتا تو برہم ہوکرفرماتے۔سنو! یہ بزرگ جن کا تم نے قول پیش کیاہے، ہم سے بڑے، میرے باپ سے بڑے، میرے دادا سے بڑے۔لیکن رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز بڑے نہیں ہیں۔