کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 71
قیام بنارس کے دوران ایک روز نماز صبح کے بعد قاری فیض محمد صاحب نے اپنے قائد سے کہا کہ مجھے سرائے میں لے چلو۔میں نے رات خواب میں دیکھا ہے کہ میرے استاد(میاں نذیر حسین صاحب) بنارس آئے ہیں اور سرائے میں قیام فرما ہیں۔قائد نے کہا جناب کہاں دلی، کہاں بنارس، میاں صاحب یہاں کیسے آگئے۔قاری فیض محمد صاحب نے قدرے سخت لہجے سے فرمایا، میرا خواب جھوٹا نہیں ہوسکتا۔میاں صاحب یقیناً یہاں آئے ہیں اورسرائے میں ٹھہرے ہیں۔تم مجھے وہاں لے چلو، چنانچہ وہ ان کے مجبور کرنے پر وہاں لے گیا۔میاں صاحب واقعی وہاں موجود تھے۔انھوں نے قاری فیض محمد کو دیکھا تو جلدی سے ان کی طرف بڑھے اور مصافحہ کرتے ہوئے بے تکلفی سے فرمایا:ارے تم کہاں؟انھوں نے بتایا کہ نواب باندہ کے ساتھ آیا ہوں۔پھر جیب سے سوالات نکال کر کہا ان کے جواب لکھ دیں۔میاں صاحب نے چند منٹ میں جواب لکھ کر انہیں دے دیا اور پھر پوچھا کہ یہ سوال کس نے لکھے ہیں؟انھوں نے بتایا کہ قاری عبدالرحمان پانی پتی نے لکھے ہیں۔میاں صاحب نے فرمایا وہ ہمارا پرانا یارنہایت غصہ دار آدمی ہے۔اسے پتا چل گیا تو مجھ سے بگڑ جائے گا۔اب جو کچھ ہونا تھا ہوچکا۔تم اس کے سامنے میرا نام ظاہر نہ کرنا اور نواب باندہ کو بھی میرے یہاں آنے کی خبر نہ دینا۔ اب قاری فیض محمد صاحب نہایت خوش تھے۔وہ جواب لے کر نواب صاحب کے پاس آئے اور کہا یہ لیجئے قاری عبدالرحمان کے انیس سوالات کے جواب۔۔۔! نواب صاحب خود حافظ قرآن اور قاری تھے اور فن قراءت سے دلچسپی رکھتے تھے بلکہ اپنی فوج میں انھوں نے حافظوں اور قاریوں کا ایک خاص دستہ متعین کررکھاتھا۔ان کے دربار میں علمائے کرام کا بھی ہروقت مجمع رہتا تھا اورعلمی بحثیں جاری رہتی تھیں۔نواب صاحب نے سوالات کے جواب پڑھے تو بہت خوش ہوئے، اس وقت جو علمائے کرام وہاں موجود تھے، انھیں بھی وہ سوالات اور جواب سنائے گئے۔انہوں نے بھی بڑی تحسین کی۔ پھر نواب صاحب نے قاری فیض محمد سے پوچھاکہ یہ جواب کس نے لکھے ہیں؟کہا میرے استاد نے؟پوچھا:کس استاد نے؟بولے دلی والے میاں نذیرحسین نے۔پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ کیا سرائے میں قیام فرما ہیں۔نواب صاحب نے اسی وقت چند معززین کو قاری فیض محمد کے ساتھ سرائے میں بھیجا اور وہ اصرار کرکے میاں صاحب کو ان کے پاس لے گئے۔نواب صاحب اس وقت باندہ جارہے تھے، وہ جبراً میاں صاحب کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔لیکن میاں صاحب دوسرے دن کسی نہ کسی طرح وہاں سے آگئے۔کیونکہ یہ رمضان شریف کے آخری دن تھے اور دوچار روز کے بعد ان کے استاذ مکرم حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب دہلی سے ہجرت کرکے مکہ مکرمہ جارہے تھے اور