کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 70
کہ کوئی شخص ان سے ناراض نہ ہو اور ان کے کسی عمل سے کسی کی دل شکنی نہ ہو۔اس قسم کا ایک دلچسپ واقعہ سنیے جو الحیات بعد الممات کے مصنف شبیر نے لکھا ہے، میں اسے یہاں اپنے الفاظ میں اختصار سے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
ایک بزرگ حافظ قاری ابوالخیر فیض محمد سرہندی تھے جو قاری کرم اللہ دہلوی کے شاگرد تھے اور قاری کرم اللہ صاحب حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کے شاگرد تھے۔قاری ابوالخیر فیض محمد کومیاں صاحب نے قرآن سنایاتھا اور ان سے قراءت سیکھی تھی۔چنانچہ میاں صاحب کسی کو قراءت قرآن کی سند دیتے تو انہی کے واسطے سے ان الفاظ میں دیتے تھے۔
(فقد قرأت القرآن علي القاري فيض محمد سرهندي و هو قرأ علي المولوي كرم اللّٰه الدهلوي وهو قرأ علي الشاه عبدالقادر الدهلوي وهو قرأ علي أبيه الشاه ولي اللّٰه المحدث الدهلوي)
خود قاری فیض محمد سرہندی نے بھی میاں صاحب سے پڑھا تھا یعنی وہ دونوں ایک دوسرے کے شاگرد اور دوست تھے۔قاری فیض محمد نواب باندہ کے ہاں ملازم تھے اور فن قراءت میں مہارت رکھتےتھے۔ان کی ملازمت کے کئی سال بعد ایک اور شخص قاری عبدالرحمان پانی پتی کو بھی نواب باندہ کی سرکار میں ملازمت مل گئی۔قاری فیض محمد سرہندی چونکہ پرانے ملازم تھے اور فن قراءت کے ماہر بھی تھے، اس لیے ان کا مشاہرہ زیادہ تھا اور قاری عبدالرحمان پانی پتی کا کم۔۔۔! قاری عبدالرحمان کو اس کابہت احساس تھا کہ فیض محمد صرف قاری ہیں اور مجھ سے زیادہ تنخواہ پاتے ہیں اور میں قاری بھی ہوں اور عالم دین بھی ہوں لیکن مجھے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔یہ ان کی ایک معاصرانہ سوچ تھی، جو بظاہر غلط نہ تھی۔قاری فیض محمد نابینا تھے۔
ایک دن قاری عبدالرحمان پانی پتی نے علم قراءت کے متعلق انیس سوالات لکھ کر نواب باندہ کی خدمت میں پیش کیے کہ قاری فیض محمد سرہندی سے ان کے جواب لکھوائے جائیں۔ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ ان سوالات کے جواب نہیں لکھ سکیں گے اور میں نواب صاحب سے کہوں گا کہ جب یہ کسی علمی بات کا جواب نہیں دے سکتے تو انھیں مجھ سے زیادہ تنخواہ کیوں دی جاتی ہے۔نواب صاحب نے جواب کے لیے سوالات قاری فیض محمد کو دیے۔انھوں نے سوالات سن کر کہا میں سوال وجواب کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا، میں یہ کہتا ہوں کہ جس کوقراءت قرآن کا دعویٰ ہو، وہ میرے سامنے قرآن پڑھے اور مجھ سے سنے۔لیکن نواب صاحب چونکہ قاری فیض محمد کا بہت احترام کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ اس میدان میں وہ فتح یاب ہوں، اس لیے انھوں نے جواب کے لیے اصرار کیا۔قاری فیض محمد نے کہا بہت اچھا میں جواب لکھوادونگا۔چند روز کے بعد نواب صاحب بنارس آئے تو قاری صاحب محمد کو بھی اپنے ساتھ لے آئے۔