کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 69
میاں صاحب فتویٰ نویسی کا کسی سے کوئی صلہ یا کوئی پیسا نہیں لیتے تھے۔فتویٰ نویسی کوکسبِ معاش کا ذریعہ بنانا ان کے نزدیک نہایت معیوب تھا۔ان لوگوں کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جنھوں نے فتویٰ نویسی کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا۔ان کے بارے میں فرمایا کرتے کہ ان کو دو روٹیاں دو جو چاہو لکھ والو۔
کوئی شخص کسی پیرائے سے اپنی موافقت میں فتویٰ لکھوانا چاہتا تو صاف کہہ دیتے کہ اسی لیے تو میں نے کسی کی نوکری نہیں کی۔
ایک شخص نے استفتاء کا جواب لینے کے بعد حضرت میاں صاحب کے ہاتھ میں کچھ روپے دیے۔آپ نے فوراً روپے پھینک دیے اورخفا ہوکرفرمایا تو مجھ کو رشوت دینے کے لیے آیا ہے۔اس نے معذرت کی اور عرض کیا کہ یہ فتوے کی اجرت نہیں ہے، یونہی کچھ پیش کیا ہے۔فرمایا”آج سے پہلے بھی تو کبھی مجھے ملا تھا اور کچھ دیا تھا۔۔۔؟“ بہرکیف میاں صاحب نے اس کے روپے قبول نہیں کیے اور وہ فتویٰ لے کر چلا گیا۔
اب فتوے کی اجرت کسی نہ کسی بہانے عام چلتی ہے ایسے مفتی صاحبان بھی ہوں گے جو خود میاں صاحب کے فتاویٰ نذیریہ کی مدد سے فتوے لکھتے ہوں گے اورمستفتی سے اس کا معاوضہ لیتے ہونگے۔
امانت
محلے دار یا دوسرے لوگ عام طور سے اپنے زیورات یا نقد روپے یا کوئی اور چیزیں میاں صاحب کے پاس بطور امانت رکھ دیتے اور پھر جب چاہتے لے جاتے۔وہ سب کچھ اسی طرح پڑا رہتا، جس طرح رکھ کر گئے تھے۔
ایک مرتبہ ایک پنجابی سپاہی ایک سو اسی(180) روپے دو مہینے کے وعدے پر میاں صاحب کے پاس امانت رکھ کر دلی سے کہیں باہر چلا گیا۔ جب اسی کی واپسی کا وقت قریب آیا تو میاں صاحب نے دیکھا کہ صندوق ٹوٹا ہوا ہے اور اس سے رقم نکال لی گئی ہے۔سخت تشویش ہوئی۔بالآخر کسی طرح اس کے آنے سے قبل ایک سواسّی روپے کا انتظام کرلیا اور اس کے آنے پر اسے یہ رقم دے دی۔اس کی چوری کا اسے پتا نہیں چلنے دیا۔
ایک قاری کے سوالات کا قصہ
حضرت میاں صاحب کی ذاتِ گرامی گوناگوں خوبیوں کا خوبصورت مجموعہ تھی۔وہ اپنے پرانے دوستوں اور ہم جماعت لوگوں کا خاص طور سے بہت لحاظ کرتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی
[1] ۔الحمدللہ بہت عرصہ پیشتر فتاویٰ نذیریہ کے نام سے میاں صاحب کے فتووں کی تین ضخیم جلدیں چھپ چکی ہیں اور بازار سے مل جاتی ہیں۔لیکن افسوس ہے یہ تمام فتوے نہیں ہوں گے۔