کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 68
بیعت لی اور حلقہ مسترشدین میں شامل کیا۔
بریں خوانِ یغما
حضرت عبدالمنان وزیر آبادی کا نام گزشتہ سطورمیں ایک سے زائد مرتبہ آیا ہے۔وہ نابینا تھے اور حضرت میاں صاحب کے شاگرد تھے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے وزیر آباد(ضلع گوجرانوالہ) کو اپنا مسکن بنایا اور بے شمار علماء وطلبا نے ان سے استفادہ کیا۔انھوں نے مولانا عبدالحمید سوہدروی کو اپنا سفارشی خط دے کر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں بھیجا۔میاں صاحب نے ایک طالب علم کو یہ خط سنانے کا حکم دیا۔اس میں دو تین مرتبہ تحریر کیا گیا تھا کہ اس طالب علم کا خاص طورسے خیال رکھا جائے۔میاں صاحب نے خط سنا تو فارسی کا یہ خوب صورت مصرع پڑھا ؎
بریں خوان ِ یغماچہ دشمن چہ دوست
نہایت برمحل مصرع ہے اور میاں صاحب کے مزاج وعمل کا بہترین عکاس۔
فتوے کی اجر ت سے نفرت
حضرت میاں صاحب نے درس وتدریس کے علاوہ فتویٰ نویسی بھی کی۔اتنے فتوے لکھے اور اتنے استفتا کے جواب دیے کہ اس کا حصر ممکن نہیں۔”الحیات بعد الممات“ کے فاضل مصنف مولانا فضل حسین بہاری کا بیان ہے کہ وفات سے ستائیس برس پہلے ایک روز فتویٰ نویسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میاں صاحب نے فرمایا تھا کہ میرے سارے فتووں کی نقل رکھی جاتی تو ان کی تعداد کم سے کم فتاویٰ عالمگیری سے چار گنا زیادہ ہوتی، مگر پہلے اس کا کسی نے خیال نہیں کیا۔(اپنے صاحبزادے کے متعلق فرمایا)اب یہاں شریف حسین نقل رکھنے لگے ہیں۔
اس سے آگے مولانا فضل حسین بہاری فرماتے ہیں:” اس ستائیس برس کے زمانے میں آپ نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں فتوے لکھے ہونگے، جن میں سے بیشتر فتووں کی نقل آپ کے پوتے حافظ عبدالسلام کے پاس مولوی شریف حسین مرحوم کے ہاتھ کی لکھی ہوئی غالباً موجود ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو توفیق دے کہ جہاں تک آپ کے فتوے دستیاب ہوسکیں، ان کوجمع کرکے فتاویٰ نذیری کے نام سے چھپوادے۔“[1]