کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 67
تاثر نے غلبہ پالیا اور دیکھتے ہی دیکھتے محفل درس کا رنگ بدل گیا۔مولانا فضل حسین بہاری کے بقول اس قسم کا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا تھا۔ان کے نزدیک اپنی نوعیت کا یہ پہلا اورآخری واقعہ تھا۔ ہم بھی اس موضوع کی حدیثیں پڑھتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ارتحال کا مطالعہ بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو سناتے بھی ہیں، لیکن ہماری یہ حرماں نصیبی ہے کہ نہ اس کا اثر ہمارے دل پر ہوتا ہے اور نہ ہمارا ذہن اس سے متاثر ہوتا ہے۔بس ایک واقعہ کی صورت میں اسے بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ہمارے سننے والے بھی اس سے کوئی اثر نہیں لیتے۔ غیر اہل حدیث سے مراسم میاں صاحب اپنے عہد کے معروف ترین اہل حدیث عالم تھے، لیکن اپنے دور کے غیر اہل حدیث حضرات سے بھی مخلصانہ مراسم رکھتے تھے اور ان کے ساتھ ان کی خط وکتابت بھی رہتی تھی۔ایک مرتبہ ایک طالب علم نے ان سےدرخواست کی کہ مولانا فضل الرحمان گنج مراد آبادی کے نام خط لکھ دیں کہ وہ اس کی تعلیم وتربیت کریں۔میاں صاحب نےخط لکھ کر اسے دے دیا۔ مولانا فضل الرحمان مراد گنج آبادی نے اس خط کے جواب میں میاں صاحب کولکھا کہ آپ نے اس شخص کو میرے پاس کیوں بھیج دیا۔وہ کون سی ایسی شرعی بات ہے جو ہم جانتے ہیں اور آپ نہیں جانتے۔ہم آپ سے بڑے عالم نہیں ہیں۔ مسئلہ بیعت میاں صاحب کا بیعت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔جولوگ ان کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کے خواہاں ہوتے، میاں صاحب ان کو اپنے حلقہ بیعت میں شامل فرماتے اور انھیں نصیحتیں کرتے۔ان کا کوئی شاگرد بیعت کرنا چاہتاتو فرماتے تم تو ہمارے شاگرد ہو، بس یہی کافی ہے اس کے بعد بھی کوئی اصرار کرتا تو بیعت لے لیتے۔جس مجمعے میں کسی سے بیعت لیتے تمام حاضرین اس میں شامل ہوجاتے۔ مولانا شاہ مختار الحق اپنے زمانے کے ممتاز عالم تھے۔وہ بیعت کے لیے حضرت مولانا سید عبداللہ غزنوی کی خدمت میں امرتسر گئے۔حضرت نے فرمایا تم دہلی جاؤ۔وہاں کچھ عرصہ حضرت میاں صاحب کی صحبت میں رہو اور ان سے استفادہ کرو۔ان سے اجازت لے کر یہاں آؤ۔چنانچہ پہلے وہ دہلی گئے اورکچھ عرصہ میاں صاحب کی خدمت میں گزارا۔پھر میاں صاحب کا خط لے کر امرتسر گئے اور حضرت عبداللہ صاحب کے حضور وہ خط پیش کیا۔بعد ازاں حضرت ممدوح نے ان سے