کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 66
حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں:اَهْلُ الْقُرْآنِ اَهْلُ اللّٰهِ وَ اَهْلُ الْحَدِيْثِ اَهْلُ رَسْوُلِ اللّٰهِ۔واقعۃً حضرت میاں صاحب اس قول کے صحیح ترین مصداق تھے اور قرآن وحدیث کی سچی محبت اور اس کے احکام ان کی لمحات زندگی میں گھر کر چکے تھے۔
مولانا جامی کاشعر ہے:
خوش آں منبر ومسجد وخانقا ہے
کہ دروے بود قیل وقال محمد
میاں صاحب کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ آپ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
مجختے ست کہ دل رانمی وہد آرام
وگرنہ کیست کہ آرام جاں نمی خواہد
النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ:
حیات مستعار کے آخری دور میں حضرت مرحوم کو ضیق النفس کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا، لیکن ان کی تدریس قرآن وحدیث کی سرگرمیاں اتنی نمایاں تھیں کہ اس عارضے کے اثرات ان پر حاوی نہیں ہوسکے۔بلکہ یہ تدریس ہی اس بیماری کی ان کے نزدیک اصل دوا اور غذا تھی۔عام حالات میں بعض اوقات اس بیماری کی وجہ سے ان کے لیے بیٹھنا اٹھنا مشکل ہوجاتا، لیکن جیسے ہی مسند تدریس کو رونق بخشنے، اور زبان سے قال اللہ وقال الرسول کی صدا فضا میں گونجنے لگتی، بیماری کے اثرات اپنی جگہ چھوڑنا شروع کردیتے اور پھر آہستہ آہستہ پوری بلند آہنگی سے فریضہ درس کی انجام دہی کا سلسلہ جاری ہوجاتا۔جو لوگ حضرت کے شدتِ مرض سے آگاہ تھے اور انھوں نے تکلیف کی حالت میں انھیں دیکھا ہوتا تھا، اگر وہ درسِ قرآن وحدیث میں انھیں دیکھتے تو بالکل اندازہ نہیں کرسکتے تھے کہ یہ کسی مرض میں مبتلا ہیں۔بالکل ہشاش بشاش اور تندرست معلوم ہوتے تھے۔
اہل اللہ اور محبان خدا ورسول کے لیے اس قسم کی ریاضت ومجاہدات اطمینان روح اور سرور قلب کا باعث بنتے ہیں اورقرآن کی زبان میں ان اوصاف کے حامل شخص کو نفس مطمئنہ کہا جاتا ہے۔
ایک عجیب وغریب کیفیت
بعض اوقات حدیث پاک کا درس دیتے ہوئے حضرت ممدوح پر عجیب غریب قسم کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ایک دن صحیح بخاری کےسبق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق حدیث آئی تو ایک دم دل کی دنیا بدل گئی اور ایسا گریہ طاری ہواکہ سبق موقوف کردیا۔یہ حالت دیکھ کر طلبا پر بھی