کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 65
دھوپ، گرمی، جاڑا، برسات ہر موسم میں بعد مسافت کے باوجود گیارہ بجے دوپہر پیادہ پا جامع مسجدجاتے اور دو بجے واپس آتے چھتری تمام عمر کبھی نہیں لگائی۔سرپر مخطط موٹی چادررکھ لیتے اور چل پڑتے۔ماہ رمضان میں نماز فجر سے نماز مغرب تک قرآن مجید اورتفسیر جلالین پڑھاتے، بلکہ عام طریقہ یہ تھا کہ آگے آگے خود پڑھتے اور پیچھے پیچھے طلبا کا سلسلہ قراءت جاری رہتا۔غیر رمضان میں تو گیارہ سے بارہ بجے تک ایک گھنٹے کا وقفہ ہوجاتا تھا، رمضان میں وہ بھی ختم ہوجاتاتھا۔تدریس کی حالت میں جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا جوش مزید بڑھتا جاتا۔آواز بلند ہوتی جاتی اور طبیعت میں بشاشت ابھر آتی۔ رمضان المبارک کی راتوں میں دو دفعہ قرآن مجید بحالت قیام ہر سال سنتے۔ایک دفعہ فرض عشاء کے بعد نمازتراویح میں جس کے امام ان کے شاگرد رشید حافظ احمد ہوتے جو فقیہ بھی تھے اور محدث بھی۔وہ ترتیل وتجوید کے ساتھ تین سیپارے روزانہ سناتے۔دوسرا قرآن نماز تہجد میں سنتے، جس کے امام ان کے بڑے پوتے حافظ عبدالسلام تھے۔ اس طرح ہررات میں دو مرتبہ قرآن مجید کی سماعت کرتے۔ اس کے بعد طالب علموں کے لیے سحری اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے مسجد اور مدرسے میں جاتے اور ہرشخص کو جگا کر کھلاتے۔یہ معمولات ان کی زندگی کا جز بن گئے تھے۔اس سے انھیں راحت محسوس ہوتی تھی۔اگر ان میں خلل واقع ہوجاتا تو انھیں ذہنی تکلیف پہنچتی۔ اب بے شمار شیوخ الحدیث اور معلم قرآن وحدیث ہوگئے ہیں۔حضرت میاں صاحب کا تذکرہ کرنے والوں اور ان کے حالات بیان کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔لیکن کیا ایسا معلم اور شیخ الحدیث کہیں نظر آتا ہے، جس میں حضرت میاں صاحب کے بے شمار اوصاف میں سے دوچار اوصاف بھی پائے جاتے ہوں۔۔۔؟ یہاں یہ یادر رہے کہ میاں صاحب کو نہ شیخ الحدیث کہا جاتاتھا، نہ شیخ القرآن کہا جاتا تھا اور نہ صدرمدرس کہا جاتاتھا۔ اللہ اوررسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت میاں صاحب کے حالات زندگی اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے قلب صافی میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت راسخ ہوچکی تھی اور ان کی لوحِ ذہن پرقرآن وحدیث سے مودت ِصحیحہ کے نشانات مرتسم ہوگئے تھے۔(مَنْ أَحَبُ شَيْئًا أَكْثَرَ ذِكْرَه) (جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے، زیادہ تر اسی کی یاد میں مشغول رہتا ہے) کے مطابق یہی باتیں ان کے وردِ زبان رہتی تھیں۔