کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 62
اندازمیں کہنے لگا: میاں نجیر حسین(نذیرحسین) دو کام ہیں۔بتا پہلے کون ساکام کرے گا؟ میاں صاحب نے فرمایا:تو جس کام کو کہے گا پہلے وہی کروں گا۔ اس نے کہا:پہلے خدا کا کام کر۔بتاکہ الحمد سریپھ(شریف) امام کے پیچھے پڑھی جائے یا نہیں اور رپھ یدین(رفع یدین) بھی کرنا چاہیے یا نہیں؟ میاں صاحب نے دونوں مسئلے اسے بتائے اور اسے اطمینان ہوگیاتو کہا: لے اب میرا کام کر۔میں بھوکا ہوں۔گھر سے کھانا لا کرکھلا۔ میاں صاحب مکان پر تشریف لے گئے اور اسے کھانا لاکرکھلایا۔ ایک اور واقعہ سنیے اس کے راوی بھی حافظ عبدالمنان وزیرآبادی ہیں اور یہ واقعہ انہی کو پیش آیاتھا۔وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بیت الخلاء کی طرف جارہاتھا۔ایک بیل راستہ روکے بیٹھا تھا۔میں نابینا آدمی مجھے معلوم نہیں تھا۔اسی اثناء میں چپکے سے کسی نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف کو لاکر مجھے بیت الخلاء میں بٹھا دیا۔کلوخ بھی لا کر دے دئیے۔جب میں حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر چلا تو اس نے پھر مجھے وہاں سے نکال کر نہایت آرام سے راستے پر لاکر چھوڑدیا۔اس کے بعد ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو، کون آدمی آج تمہارا قائد بناتھا اور بیل کے سینگ سے کس نے تمہاری جان بچائی؟میں نے کہا میں اندھا آدمی ہوں مجھے کیامعلوم کس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے بیل سے بچایا۔اس نے کہا وہ حضرت میاں صاحب تھے۔ حلم اور صبروضبط میاں صاحب بے حد متحمل مزاج اور حلیم الطبع تھے۔ڈپٹی نذیراحمد کا بیان ہے کہ میاں صاحب جب سفر حج سے واپس لوٹے تو دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر استقبال کرنے والوں کا بے پناہ ازدحام تھا۔مصافحہ اور دست بوسی کرنے والوں میں میاں صاحب کا ایک سخت معاند بھی موجود تھا۔جب خاص خاص لوگ میاں صاحب کو اپنے حلقے میں لیے پلیٹ فارم سے باہر لارہے تھے تو ایک شخص آیا، اس نے مصافحہ اور دست بوسی کے بہانے ان کے ہاتھ کے انگوٹھے میں اس زور سے دانت کاٹا کہ خون جاری ہوگیا اور انگوٹھا سخت مجروح ہوا۔میاں صاحب نے فوراً اس انداز سے انگوٹھا اپنی چادر میں چھپا لیا کہ کسی کو اس واقعہ کا علم نہ ہوا۔جب آپ مسجد میں پہنچے تو پانی لے کر اس خون آلودہ ہاتھ کو دھویا، تب لوگوں کو اس واقعہ کا علم ہوا۔جس شخص نے یہ مکروہ حرکت کی تھی، میاں صاحب اسے پہچانتے تھے لیکن لوگوں کے بے حد اصرار کے باوجود اس کا نام نہیں بتایا۔یہ تھا میاں صاحب کا صبر اور حلم۔