کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 60
دور کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا عالم اس کا تصور کر سکتا ہے؟کسی بڑے کو تو خیر اس قسم کا معاملہ خواب میں بھی پیش نہیں آسکتا۔ ایک بزرگ جناب میر شاہ جہاں صاحب حضرت میاں صاحب کے عزیزوں میں سے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے چند سوالات تحریری صورت میں میاں صاحب کی خدمت میں بھیجے۔ میاں صاحب نے ان کا 10۔جمادی الاخریٰ1318ھ(8۔اکتوبر1900ء) کو ارسال فرمایا۔ جواب میں ایک فقرہ یہ تھا کہ”دولت نہ کبھی ہمارے پاس ہوئی، نہ اب ہے، جو کسی کے پاس چھوڑ جاؤں۔خرچ کے موافق اللہ تعالیٰ دیتا رہا، یہ اس کا احسان ہے۔“ میاں صاحب کے جاں نثار معتقدمین میں سے دہلی کے ایک مشہور سوداگر میان عطاء اللہ پنجابی تھے۔ انھوں نے ایک دن عرض کیا کہ حضور آپ بہت ضعیف ہوگئے ہیں۔ ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھانے میں آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔روئی کا گدہ بنا دیتا ہوں۔اس پربیٹھ کر طلبا کو پڑھایا کیجیے۔فرمایا:”پرانی قبر پر کیا گچ کرو گے۔“ان کی درخواست میاں صاحب نے منظور نہیں فرمائی۔ یہی معنے ہیں حدیث کے ان الفاظ کے (كُنْ في الدُّنْيا كأَنَّكَ غريبٌ، أَوْ عَابِرُ سبيلٍ)(دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو، جیسے کہ تم اجنبی ہو یا مسافر ہو۔) قناعت پسندی اور جرم کی معافی حضرت میاں صاحب نہایت قناعت پسند اور درویش منش عالم تھے۔والیہ بھوپال نواب سکندر جہاں بیگم اپنی ریاست کے مدار المہام منشی جمال الدین صدیقی کے ساتھ دہلی آئیں اور حضرت میاں صاحب سے ملیں۔ ان سے ریاست کا عہدہ قاضی القضاۃ قبول کرنے کی درخواست کی۔ میاں صاحب نے انکار کردیا۔فرمایا میں تو ریاست کے قاضی القضاۃ کے منصب عالی پر فائز ہو کر حاکمانہ مسند پر بیٹھ جاؤں گا اور ٹھاٹھ سے امیرانہ زندگی بسر کروں گا لیکن یہ غریب طلبا جو چٹائی پر بیٹھ کر علم حدیث حاصل کرنے کے متمنی ہیں، مجھے کہاں ملیں گے۔۔۔؟ یہی شرح ہے حدیث پاک کے ان دعائیہ الفاظ کی: (اللّٰه مَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا، وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا، وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) (اے اللہ! مجھےمسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، مسکینی ہی کی حالت میں موت دے اور قیامت کو مسکینوں کی جماعت میں اٹھا۔) میاں صاحب کو مختلف مقامات سے روزانہ بہت سے خطوط آتے تھے۔ ایک دن ایک خط آیا جس میں لکھا تھا کہ میں آپ کی فلاں فلاں کتابیں جو تقریباً سو روپے کی ہوں گی، بلا اجازت لے کر یہاں کول(علی گڑھ) آگیا ہوں۔آپ مجھے معاف کردیں اور تفسیر جلالین بھیج دیں میاں صاحب