کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 58
خودان کے پاس جاتے اور اس طرح چپکے سے انھیں کچھ دے آتے کہ کسی کو خبر نہ ہوپاتی۔
طلباء کی امداد
مولانا عبدالحمید سوہدروی بیان کرتے ہیں کہ”ایک روز میاں صاحب نے مجھے دوروپے دیے۔میرے پاس چونکہ اپنے خرچ کے لیے پیسے موجودتھے، اس لیے میں نےمعذرت کی اور روپے لینے سے انکارکیا لیکن انھوں نے بہ اصرار مجھے دوروپے عنایت فرمائے۔“
انہی مولانا عبدالحمید سوہدروی کابیان ہے کہ ایک دن نماز ظہریاعصرمیں حضرت میاں صاحب پہلی صف میں تھے۔ان کےدائیں جانب ایک طالب علم تھا۔میاں صاحب کےپیچھے دوسری صف میں میں تھا۔نمازسےفارغ ہوتے ہی اسی جگہ بیٹھے ہوئے انتہائی اخفاکےساتھ میاں صاحب نے طالب علم کوکچھ دیا۔میراخیال ہے اس صدقے کی خبر سوائے دینے اور لینے والے کے کسی کونہ ہوئی۔مجھے بھی اس لیے پتاچلا کہ اتفاقاً میں ان کے پیچھے تھا۔لیکن حضرت میاں صاحب کو یا اس طالب علم کو میرے دیکھنے کی بھی خبر نہ ہوئی۔یہ ہے(رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ بِيَمِينِهِ يُخْفِيهَا مِنْ شِمَالِهِ)اور انفاق في السر کا مطلب
تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت
تقوے کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایاگیا (إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللّٰه أَتْقَاكُمْ) یعنی اللہ کے نزدیک تم میں بہتر شخص وہ ہے جسے تقوٰی کی نعمت عطا کی گئی ہے۔جب علم حدیث کی تحصیل کے بعد میاں صاحب مدرسے کے طلبا کو رخصت کرتے تو فرماتے(أُوصِیکُم بِتَقْوَى اللّٰه )(میں تمھیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔)
تقوے کی دوقسمیں ہیں: ایک قسم کا تعلق عادات وعبادات سے ہے، اور دوسری کا اکل و مشارب سے۔ حضرت میاں صاحب تقوے کی ان دونوں قسموں پر عامل تھے اور طلبا کو بھی ان پر عمل پیرا ہونے کی تاکید فرماتے تھے۔ چنانچہ ان کے تمام شاگرد تقوے کے اوصاف سے متصف تھے۔
عفو تقصیر اور اس کا نتیجہ
مولانا محمد بدر الحسن سہسوانی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے میاں صاحب کی دعوت کی۔ میاں صاحب تشریف لائے، مگر کھانے سے قبل انھیں متلی سی ہوئی اور قےآنے لگی۔ اس لیے انھوں نے کھانا تناول نہیں فرمایا اور گھر تشریف لے گئے۔ان کے تشریف لے جانے کے بعد میرے ملازم کے پیٹ میں شدید درد ہونے لگا، جس سے وہ نیم بسمل ہوگیا۔اس کا نام عبدالنبی تھا اور رام پور کا