کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 53
تصویر اور انابت الی اللہ کاکامل ترین نمونہ تھے۔ ان اوصاف سے متصف لوگ ہمیشہ پیدا نہیں ہوتے، مشیت خداوندی سے وہ ایک خاص فضا میں عالم وجود میں آتے ہیں اورایک خاص ماحول میں ان کی ذہنی بالیدگی اور جسمانی نشوونما کے اسباب اس وقت فراہم کیے جاتے ہیں، جب کہ اس دنیا میں ان کی شدید ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔
اب آئیے حضرت میاں صاحب کی حیاتِ مبارکہ کے مذکورہ بالاعنوانات کی مختصر الفاظ میں شرح بیان کرنے کی سعی کرتے ہیں۔سب سے پہلے ان کی طہارت وپاکیزگی کے متعلق چند الفاظ۔۔۔!
اس باب میں ہمارے نزدیک سب سے قابل اعتماد ذریعہ حضرت میاں صاحب کے اوّلیں تذکرہ نگار جناب مولانا فضل حسین بہاری کا بیان ہے، جو میاں صاحب کے شاگرد اور ان کی عملی تک ودود کے چشم دید گواہ ہیں لہذا ان کے متعلق ان کے بیان کو بنیادی اہمیت دی جائےگی۔وہ فرماتےہیں کہ سوائے ان تین چار گھنٹوں کے جو نیند کی حالت میں گزرتے تھے مشکل ہی سے کسی ایسے وقت کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جب حضرت میاں صاحب باوضو نہ ہوں۔وہ شب کو ایک بجے بیدار ہوجاتے اور وضو کرکے نماز تہجد پڑھنا شروع کردیتے تھے۔ساڑھے تین بجے تک یہ عمل جاری رہتا۔اس کے بعد مسجد میں جاتے۔پھر مسجد کے اندر یا صحن میں بیٹھ کر مراقبے کی سی کیفیت اختیار کرلیتے اور ذکر الٰہی میں مصروف ہوجاتے۔اس وقت بالعموم نہایت دردناک لہجے میں موقعے کی مناسبت سے عربی، فارسی اور اردو کے اشعار بھی پڑھتے۔نماز فجر کے بعدقرآن مجید کادرس ہوتا۔پھر گیارہ بجے تک طلباء کو حدیث شریف پڑھاتے۔جیب میں تسبیح بھی رہتی اوروہ ہاتھ میں بھی منتقل ہوجاتی۔ماثورہ اوراد واذکار پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھتے۔گیارہ بجے مسجد سے گھر تشریف لے جاتے اور بارہ بجے واپس مسجدآجاتے۔اس وقت سے مغرب تک تین وقتوں کی نمازوں اور درس کے سوا اور کوئی کام نہ ہوتا۔مغرب کی نماز پڑھ کر گھر چلے جاتے اور پھر ثلث شب کے قریب نماز عشاء کے لیے مسجد آتے۔حوائج ضروریہ کے اوقات کے علاوہ اس تمام وقت میں وہ باوضو اور طاہر رہتے۔نماز نہایت اعتدال اور خشوع وخضوع سے پڑھتے۔قراءت میں ایسی خشیت طاری ہوتی اور اس طرح اللہ کی طرف رجوع فرماتے کہ أَنْ تَعْبُدَ اللّٰه كَأَنَّك تَرَاهُ کی کیفیت طاری ہوجاتی۔
اب حضرت میاں صاحب کی عفت مآبی اور پاک بازی کی طرف چند اشارے:
میاں صاحب عین عالم جوانی میں دہلی میں آئے تھے اورسب سے پہلے ان کا تعلق مولانا سید عبدالخالق صاحب سے ہوا تھا۔چھ سال وہ ان سے حصولِ علم کرتے رہے اوراس اثنا میں تھوڑا بہت تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے درس میں بھی ان کی حاضری رہی