کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 50
ہوئی۔شیوخ نے پوچھا اين شيخ؟(شیخ کہاں ہیں؟)میں نےکہا مکان میں ہیں۔ان شیوخ نے برہمی کے لہجے میں کہا کہ ہمیں دکھادو، وہ کہاں ہیں۔ہم لوگ ان کے بارے میں کچھ اور ہی باتیں سن کر آئےہیں۔میں نے ساتھ لے جاکر ان کی میاں صاحب سے ملاقات کرادی تو ان شیوخ نے کہا کہ ابھی ہم نے ایک موحش خبر سنی ہے اور ہمارا مقصد اس کی تحقیق کرنا تھا۔الحمد للہ کہ ہم نے شیخ کو زندہ اور صحیح سالم دیکھا، ورنہ آج جو کچھ ہونا تھا، ہو کررہتا۔“[1]
اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب کو بے حد اعزاز سے نوازا تھاہر جگہ ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ ہرجگہ ان کا احترام کیا جاتا تھا اور لوگ ایک دوسرے سے بڑھ کر ان کی تکریم کرتے تھے۔اس کی وجہ فقط ان کا علم و تقویٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک کی خالصۃ لوجہ اللہ تعلیم وتدریس اور اللہ کے دین کی اشاعت و تبلیغ تھی۔اس کی بہت سی مثالوں میں سے یہاں صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیے، جس کا تعلق صوبہ بہار کے شہر آرہ سے ہے اور یہ ان کا آرہ کا آخری سفر ہے۔آرہ کے علماء ورؤسا کی درخواست پر جب وہ آرہ تشریف لے گئے تو ریلوے اسٹیشن سے ان کی قیام گاہ تک انھیں لے جانے کے لیے پالکی لائی گئی تھی۔ جوں ہی وہ ٹرین سے اترے اور لوگوں کی نظر ان کے چہرہ مبارک پر پڑی تو استقبال کے لیے آنے والے علماء ورؤسا کے دلوں میں ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ انھیں پالکی میں بٹھا کر پالکی کو کندھوں پر اٹھا لیا اور اسی حالت میں قیام گاہ تک لایا گیا۔ہر شخص آگے بڑھ کر پالکی کو کندھا دینے کا خواہش مند تھا، لیکن بہت سے لوگ اس سے محروم رہے۔ جدھرسے پالکی کو لے جایا جاتا، لوگ کھڑے ہو کر تعجب سے اس منظر کو دیکھتے اور حیران ہوتے تھے کہ یہ کون اتنا بڑا شخص ہے جس کا اس قدر احترام کیا جارہا ہے۔
جہاں حضرت میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر احترام کی دولت عطا فرمائی، وہاں انھیں بعض بہت بڑی تکلیفیں بھی پہنچیں۔حج بیت اللہ سے ساڑھے تین برس بعد6۔جمادی الاخریٰ 1304(2مارج 1887ء)کو 57برس کی عمر میں ان کے فرزند گرامی مولانا سید شریف حسین وفات پاگئے۔یہ چہار شنبہ کا روز تھا۔
شمس العلماء کا خطاب
22۔جون 1897ء(21محرم1315ھ)کو بروز سہ شنبہ) حکومت کی طرف سے میاں صاحب کو شمس العلماء کا خطاب ملا۔ ہر حکومت مختلف لوگوں کو ان کے مقام و مرتبے کے مطابق کوئی نہ کوئی خطاب دیتی ہے۔اس میں حکومت کی مخالفت یا موافقت کے مسئلے کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی، صرف