کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 48
ہے کہ ہراسٹیشن پر اور ریل کی گاڑیوں میں میاں صاحب کے زائرین اور استقبال کرنے والوں کا ایسا ہجوم تھا، جس طرح لوگ ہلال عید کی جستجو میں 29۔رمضان کو مجتمع ہوتے ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد صاحب ایل ایل ڈی فرماتے ہیں:
”جب آپ سفر حجاز سے واپس تشریف لائے تو اسٹیشن دہلی پر استقبال کے لیے اس قدر لوگ حاضر ہوئے کہ پلیٹ فارم کا ٹکٹ ختم ہوگیا۔ کار پردازان اسٹیشن حیران تھے کہ یہ کس نامی گرامی شخص کی آمد آمد ہے۔“
”جب ٹرین دہلی اسٹیشن کے پلٹ فارم پر پہنچی تو آدمیوں کا ایسا ازدحام دیکھا کہ ہم لوگوں نے تمام زندگی کبھی کسی عالم، درویش، ولی، متقی، امیر اور وزیر کے قدوم پر ایسی کثرت نہیں دیکھی تھی۔ پلیٹ فارم اور اسٹیشن پر ہزارہا مخلوق تھی۔ بہت لوگ ایسے تھے جن کو میاں صاحب کی زیارت بھی اسٹیشن پر نصیب نہ ہوسکی، کجا مصافحہ۔ میاں صاحب کو بھی ایک قدم چلنا دشوار ہوگیا۔ آخر بڑی مشکلوں سے نواب محمد علاء الدین خاں بہادررئیس لوہارو(جو میاں صاحب کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے)اور چند اور معززین واعیان دہلی نے آپ کو حلقہ میں لیا اور بہ مشکل پلیٹ فارم سے فٹن تک پہنچا کر سوار کرایا۔ افسران ریلوے یورپین اور دیسی، ہندو، مسلمان اور عیسائی اس منظر کو دیکھ کر سخت حیرت میں تھے کہ یہ کون سا مقتدر بندہ ہے، جس کے لیے ہزاروں دیدہ و دل فرش راہ ہیں۔“[1]
حضرت میاں صاحب کو سفر حجاز کے دوران میں جہاں بعض لوگوں نے مختلف دینی الزامات عائد کر کے ذہنی طور سے اذیت پہنچانے کی کوشش کی، وہاں بے شمار لوگوں نے ان سے بے حد احترام کا برتاؤ بھی کیا اور بدرجہ غایت اکرام کے مستحق گردانا۔ چنانچہ حج سے واپس آنے کے بعد حضرت نے مولوی سید عبدالعزیز (ساکن موضع صمدن ضلع فرخ آباد) تحصیل دار متھرا کے خط کےجواب میں جو مکتوب گرامی ارسال فرمایا: اس میں لکھتے ہیں:
”بخدمت عبدالعزیز سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔الحمد للہ کہ میں سفر حجاز سے واپس آیا۔ آپ نے اخبار میں سب حال دیکھے ہوں گے۔ نصرۃ السنہ نے جو چھاپا ہے، وہ صحیح کیفیت سمجھو۔ برادران ہند کی عنایت تھی، میرا جو اعزاز و تعظیم و تجیل عرب میں ہوا، اس کا شکر بجناب باری تعالیٰ کرتا ہوں۔بے شک سعایت معاندین ومنافقین سے مجھے
[1] ۔الحیات بعد الممات ص:85
[2] ۔دیکھیے ص:83تا100