کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 46
خطوط پڑھے گئے تو کسی نے کوئی مسئلہ دریافت کیا تھا، کسی نےکسی سلسلے میں کوئی فتوی پوچھا تھا، کسی نے کسی کتاب کی کسی عبارت کا مطلب سمجھانے کی درخواست کی تھی۔ایک خط میں کسی نے لکھا تھا کہ(کتاب) نخبۃ الفکر بھیج دیجیے۔ تلاشی لینے والے گروہ کے ایک شخص نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان لوگوں کی اصطلاحیں اسی قسم کے الفاظ سے مرکب ہوتی ہیں۔”نخبۃ الفکر“ان کی کوئی اصطلاح ہے اور یہ کوئی ایسی چیز ہے جو انگریزی حکومت کے خلاف استعمال کے لیے ان سے مطلب کی گئی ہے۔ میاں صاحب کو اس پر غصہ آگیا اور انھوں نے سخت الفاظ میں فرمایا: نخبۃ الفکر کیا ہے؟توپ؟ نخبۃ الفکر کیا ہے؟بندوق؟ نخبۃ الفکرکیا ہے؟گولابارود؟ پھر مجسٹریٹ کو مخاطب کر کے فرمایا: آپ نے میرا رقعہ کس جاہل کے سامنے پیش کیا ہے؟آپ کسی پڑھے لکھے شخص سے پوچھیے کہ نخبۃ الفکر کس کتاب کا نام ہے اور اس کا کیا موضوع ہے۔ بہر حال میاں صاحب کو گرفتار کر کے دہلی سے سات آٹھ سو میل دور راولپنڈی جیل میں قید کردیا گیا۔ ایک تو جیل کی سزا دی گئی اور دوسرا دہلی سے دور دراز مسافت پر بھیج دیا گیا کہ ان کا کوئی رشتے دار یا تعلق دار اتنی دور جا کر ان سے ملاقات بھی نہ کرسکے۔تقریباً ایک سال وہ راولپنڈی جیل میں قید رہے۔ راولپنڈی سے مزید تحقیق کے لیے انھیں پشاور بھیجا گیا، جہاں ایک انگریز چیمبرلین نے تحقیق کرنا تھی۔اس کے بعد پھر راولپنڈی لائے گئے۔اس اثنا میں چیمبرلین وفات پا گیا۔ قید کے زمانے میں میاں صاحب کو راولپنڈی کے سرکاری کتب خانے سے کتابیں منگوانے اور ان کا مطالعہ کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ میاں صاحب کے ساتھ ایک طالب علم بھی بھیجا گیا تھا، جس کا نام عطاء اللہ تھا۔عطاء اللہ نے حضرت میاں صاحب سے جیل میں صحیح بخاری پڑھی اور قرآن مجید حفظ کیا۔ ایک شخص میاں صاحب کے ساتھ اور تھا اس کانام میرعبدالغنی تھا۔یہ شخص میاں صاحب کے آبائی وطن سورج گڑھ کا رہنے والا تھا۔ عابد و زاہد اور متقی شخص تھا۔ اس شخص نے جیل ہی میں وفات پائی۔ میاں صاحب نے خود اس کی تجہیز و تکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی۔ 14۔رمضان المبارک 1287ھ (8۔دسمبر1870ء)کو جمعرات کے دن میاں صاحب کی اہلیہ
[1] ۔الحیات بعدالممات، ص:77، 78