کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 45
جو اس وقت مجھ سے اصولِ فقہ پڑھتا تھا، میرے ساتھ تھا۔مجھ کو کسی آدمی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔میں اس آواز کی جانب بڑھا۔جب قریب پہنچا تو دیکھا کہ ایک میم مجروح ہے اوررورہی ہے۔ہم لوگوں کو دیکھ کر کہنے لگی کہ خدا واسطے میری جان مت مارو۔میں نے اس کو دلاسا دیااور کہا کہ ہم مسلمان ہیں، ہمارے مذہب میں لڑائی کے وقت بھی کسی غنیم کی عورت اور بچوں کی جان مارنا یا انھیں تکلیف دینا حرام ہے۔تم اپنی جان کے متعلق پوری طرح اطمینان رکھو، اوراگر تمہاری مرضی ہو تو ہم تم کو اپنے گھر لے چلیں اور تمہارے زخم کا علاج اور تیمارداری کریں۔مگرچونکہ وہ بہت ڈری ہوئی تھی، کہنے لگی کہ اول تو ہم اپنے پاؤں سے چل نہیں سکتے اور تم لوگ اگر اٹھا کر لے بھی چلو توباغیوں کی گولی سے بچ نہیں سکتے۔میں نے کہا ہم لوگ تم سے کچھ دورٹھہرتے ہیں۔رات کو اندھیرے میں تم کو اٹھا کر لے چلیں گے۔آخر یہی ہواکہ اندھیرے میں ہم اور ملا صدیق اٹھا کر اس کو ایسے رستے سے لائے کہ کسی فرد بشر کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی۔گھر میں جاکر شریف حسین کی ماں سے کہا کہ یہ نہایت مظلومہ ہے۔اس کی بہت دلجوئی اور خدمت کرنی چاہیے کہ موجب خوشنودی خدا اور رسول ہے۔موسم سخت گرمی کا تھا اور وہ دن رات ایک کوٹھڑی میں بند رہتی۔ہرچند میری اہلیہ اس کو کہتیں کہ رات کو انگنائی میں آکر بیٹھو مگر وہ ڈر سے کوٹھڑی سے باہر نہ آتی اور اسی گرمی اور مچھروں کی تکلیف میں رات بھر ہاتھ اٹھائے دعا کرتی کہ اے اللہ میرا قصور معاف کر۔[1]
اب حضرت میاں صاحب کی گرفتاری اور راولپنڈی جیل میں ان کی قید کے متعلق چند ضروری باتوں کا مطالعہ فرمائیے۔
1864ء اوراس کے بعد انگریزی حکومت کی بغاوت کےسلسلے میں مولانا احمداللہ، مولانا یحیٰ علی اور مولانا محمد جعفر تھانیسری وغیرہ حضرات پر انبالہ، پٹنہ اوردیگر شہروں میں حکومت نے جو مقدمے بنائے ان میں انگریزی حکومت نے حضرت میاں صاحب کو بھی گرفتار کرلیا۔پولیس نے ان کے مکان اور مسجد کی تلاشی لی تو بے شمار خطوط پر نظر پڑی جو ان کی چارپائی اور نشست گاہ پر پڑے تھے۔تلاشی لینے والوں نے پوچھا:آپ کو اتنی کثرت سے خطوط کیوں آتے ہیں؟
فرمایا:ا س کی وجہ تو خطوط بھیجنے والوں سے معلوم کرنی چاہیے یا ان خطوط کے مضامین سے تلاش کرنی چاہیے۔